ہاشمی صاحب ایسے بھی تھے (آخری حصہ)

306

آخری دنوں میں کبھی دفتر آتے کبھی نہایت ہشاش بشاش ہوتے ہر ایک سے خیریت دریافت کرتے۔ جس دن حجامت بنواتے ہم سب کہتے آج بہت اسمارٹ لگ رہے ہیں تو حیرت سے پوچھتے… صرف آج… اور ظاہر ہے ان جیسا اسمارٹ کم ہی ملتا ہے ہم سب کہتے ہیں آپ تو ہر روز اسمارٹ ہی ہوتے ہیں۔ ایسے شفیق اور نرم دل کم ہی ملتے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد پتا چل رہا ہے کہ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ اس دور فتن میں بھی ضرورت مندوں کو دے دیا کرتے تھے۔ ایک آدھ نے ان کے انتقال کے بعد بھی رابطہ کیا۔ ایک کے بارے میں زندگی ہی میں کہہ دیا تھا کہ اسے مایوس نہ کرنا بڑی رقم بھی نہیں مانگتا۔ یہ کام کرتے تو ان کی عمر گزر گئی۔ جب کراچی سے جدہ جارہے تھے تو ایک نو عمر ساتھی نے جرأت سے کام لیتے ہوئے حسن طلب کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ہاشمی جدہ میں تو موٹر سائیکل نہیں چلائیں گے۔ ہاشمی صاحب نے موٹر سائیکل ہی اس کے حوالے کردی۔ جدہ میں قیام کے دوران جب تین لوگ ایک مکان میں رہتے تھے طے تو یہی تھا کہ کرایہ بل، سبزی ترکاری وغیرہ کے پیسے مشترکہ ہوں گے یہ لوگ وہاں کوئی تین برس رہے یہ بھانڈا شہزاد اعظم نے ہاشمی صاحب کے جانے کے بعد پھوڑا کہ میں تو غریب آدمی تھوڑی سی تنخواہ تھی ان ہی سے حساب لگوایا نئی نویلی بیگم کو کیا بھیجوں اماں کو کیا بھیجوں اور خود کیا رکھوں۔ تو انہوں نے مجھ سے کبھی کچھ نہیں مانگا اور کسی اور سے بھی نہیں مانگا۔ پوری مدت خود ہی سب ادا کرتے رہے اور کھانا الگ پکا پکا کر کھلاتے رہے۔ تو اطہر ہاشمی صاحب ایسے بھی تھے۔ لیکن ایک صاحب کتاب لے گئے اور واپس نہ کی تو بہت ناراض ہوئے اور بھری محفل میں گرفت کرلی۔ کوئی پیسے لے جاتا تو پردہ رکھ لیتے۔ وہی صاحب شاعری بھی کرتے تھے ان کی اردو اور شاعری کے اصولوں کی غلطیوں کی گرفت کرتے اور کہتے کہ تمہاری شاعری اچھی ہے اردو بھی ٹھیک کرلو۔ انہوں نے ایک دن اطہر ہاشمی کو نصیر ہاشمی کے کمرے سے نکلتے دیکھا ان کے ساتھ منور ہاشمی تھے۔ انہوں نے بے ساختہ کہا کہ ہاشمی ہاشمی سے ملتا ہے، آدمی آدمی سے ملتا ہے۔ منور ہاشمی برا مان گئے۔ نصیر ہاشمی کچھ نہ بولے، اطہر ہاشمی صاحب نے ایک دو دن بعد بلا کر کہا کہ ہاشمی کو برا نہ کہو اطہر اور منور کو کہہ دو۔ ہاشمی تو ہاشمی ہوتا ہے۔ وہ صاحب شرمندہ بھی ہوئے اور اصلاح بھی کرلی۔ یوں اطہر بھائی نے ہاشمی ہونے کے ناتے ہاشمیوں کی لاج بھی رکھ لی۔ پیار محبت سے بات کرنا، قرآن کی اس آیت کی تفسیر کہ
’’اپنے ربّ کے راستے کی جانب حکمت اور موعطہ حسنہ کے ساتھ دعوت دو‘‘۔
اور اطہر ہاشمی صاحب اس کے مطابق لوگوں تک پیغام پہنچاتے تھے۔ 37 برس کے صحافتی ساتھ کے دوران دو مرتبہ ان کی آواز بلند ہوتے سنی اور دونوں مرتبہ انہوں نے خود ان لوگوں سے معذرت کرلی۔ لیکن موقف تبدیل نہیں کیا۔ اطہر ہاشمی صاحب جب اخبار کی غلطیوں کی نشاندہی کررہے ہوتے تھے تو ہم دلچسپی سے ان باتوں کو سنتے اور اصلاح کی کوشش کرتے۔ پھر کبھی یہ غلطی سرزد ہونے لگے تو قلم خود رک جاتا تھا کہ کل شام کو آواز آئے گی۔ مظفر… باز نہیں آتے پھر وہی غلطی کردی ہمارے الفاظ، ہی اور میں کم و بیش ایک انداز میں لکھتے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر خلط ملط ہوجاتے ہیں۔ اس پر ہاشمی صاحب بار بار توجہ دلاتے تھے تو جب یہ غلطی ہونے لگتی تو ہم اسے کاٹ کر ٹھیک کرتے۔ یہ خیال اب بھی کبھی کبھی آتا ہے کہ کل ہاشمی صاحب آواز لگائیں گے۔ لیکن یہ ڈر اب آہستہ آہستہ نکل رہا ہے۔ یعنی اب یقین ہو چلا ہے کہ ہاشمی صاحب نہیں رہے۔ تاہم ان کا کام باقی ہے۔ محنت باقی ہے۔ صحافیوں اور غیر صحافیوں کو جو مشورے، ہدایات یا رہنمائی وہ دیتے تھے وہ باقی ہے اب یہ رہنمائی لینے والے پر منحصر ہے کہ کتنا عمل کرتا ہے۔ 37 برس کی کہانی چند قسطوں میں مکمل نہیں ہوسکتی۔ جوں جوں باتیں یاد آتی رہیں گی اضافہ چلتا رہے گا۔ تا کہ لوگوں کو پتا چلے کہ ہاشمی صاحب ایسے بھی تھے۔ ہم سے زیادہ ان کے گھر والے جانتے ہوں گے کہ وہ کھانا پکانے کے بھی شوقین تھے۔ بڑے شوق سے چیزیں پکاتے۔ خصوصاً میٹھی چیزیں، چنے کا حلوہ، گاجر کا حلوہ وغیرہ۔ حلیم وغیرہ بناتے ہمیں بھی کھلاتے اور جب تعریف کی جائے تو مذاق سے کہتے کہ ارے وہاں تو بے کار پڑا تھا میں نے سوچا صبح پھینکا جائے گا تو یہاں لے آیا۔ کھائو اور کھائو… ہم کبھی کبھی گھر میں بنا ہوا حلوہ یا کوئی سالن یہ کہہ کر لانے کی کوشش کریں کہ ہاشمی صاحب کو پسند ہے تو بیگم ڈر جاتی تھیں کہ ارے وہ خود اتنے ماہر ہیں کہ بتائیں گے اس میں فلاں چیز زیادہ ہے اور فلاں کم۔ لیکن لے جائیں پھر ہاشمی صاحب کے تبصرے کا انتظار بھی رہتا تھا۔ اور وہ ہمیشہ تعریف کرتے تھے۔ تنقید بھی نرمی سے، وہ ایسے بھی تھے۔
ذاتی زندگی اور دفتری زندگی ایک ہی تھی۔ ہمیں یقین ہے گھریلو زندگی بھی اسی طرح صاف اور سادہ ہوگی۔ جدہ میں چوں کہ ایک گھر میں ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا تو کئی مرتبہ دیکھا کہ پلیٹ میں تھوڑے سے چاول ایک آدھی کھائی ہوئی بوٹی اور اچار پڑا ہے۔ شہزاد سے پوچھا تو پتا چلا کہ اطہر بھائی نے رکھا ہے۔ رات کو کھائیں گے۔ اول تو کھانا زیادہ لیتے نہیں تھے لیکن اگر کھانے کے دوران سیری ہو جائے تو پلیٹ ریفریجریٹر میں رکھ دیتے تھے۔ ہمارا کیا حال ہے ہم خود جانتے ہیں۔ دوپہر یا رات کا بچا ہوا کھانا کھانا آسان بات نہیں خصوصاً اس وقت کہ خود ابھی تازہ کھانا دوسروں کے لیے بنایا ہو۔ صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ ہاشمی صاحب ایسے بھی تھے۔