کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) سانحہ بلدیہ متاثرین نے بلدیہ فیکٹری کیس کے فیصلے کو ادھورا انصاف قرار دیا ہے۔متاثرین ایسوسی ایشن کی چیئر پرسن سعیدہ خاتون نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا، مالکان سے جب سے دہشت گردوں نے بھتا طلب کیا تو اس وقت فیکٹری مالکان نے متعلقہ انتظامیہ سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ اپنی فیکٹری کیوں بند نہیں کی؟ فیکٹری کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑ دیا گیا تھا؟ان درندوں نے 264 زندہ لوگوں کو آگ میں جھلس کر مار دیا ،ہم سمجھتے ہیں کہ علی انٹرپرائز کے مالکان ارشد بھائیلہ اور شاہد بھائیلہ بھی شریک جرم ہیں انہیں بھی سزا دی جائے، بری ذمہ نہیں ہو سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹری مالکان بھی اس دہشت گردی میں برابر کے شریک ہیں۔ جب 20 کروڑ روپے بھتا مانگا جا رہا تھا تو مالکان کسی کا انتظار کررہے تھے انہوں نے سیکورٹی کے اداروں سے کیوں رابطہ نہیں کیا تھا۔ 264 افراد کے زندہ جلانے سے ہزاروں بچے یتیم ہو گئے ہیں اب بھی لوگ اپنے پیاروں کو یاد کرکے روتے ہیں۔سعیدہ خاتون نے سوال کیا کہ مالکان کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو9 کروڑ روپے دینے کی بات ہوئی تھی،جے آئی ٹی میں بھی اس کا ذکر آیا، وہ 9 کروڑ روپے کہاں ہیں جو لواحقین کو نہیں مل سکے ہے۔ سعیدہ خاتون کا کہنا تھا کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری میں مالکان بھی ملوث تھے،سزا سب کو ملنی چاہئے تھی۔ انہوں نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کے فیصلے کو ادھورا انصاف قرار دیا ہے،ان کاکہنا ہے کہ ہمیں پورا انصاف چاہیے۔مالکان سمیت تمام ملزمان ملوث تھے،سزا سب کو ملنی چاہیے تھی۔فیکٹری میں جھلس کر ہلاک ہونے والے متاثرین کے لواحقین فیصلے کو ادھورا انصاف سمجھتے ہیں،اس واقعے میں 18 سالہ سلیم احمد بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ وہ مالکان کو بھی ذمے دار سمجھتے ہیں کیونکہ جب آگ لگنے کی اطلاع سن کر وہ یہاں پہنچے تو انہوں نے فیکٹری منیجر سے درخواست کی کہ وہ مرکزی دروازے کا تالا کھولیں مگر ایسا نہیں کیا گیا ،اگر تالا کھولتے تو شاید کچھ جانیں بچ جاتیں۔ 8سال ہوچکے ہیں مگر ہمارے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی ایسوسی ایشن سے مشاورت کے بعد آئندہ چند روز میں اپنا مکمل موقف میڈیا کے سامنے پیش کریں گے۔نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے صدر خالد خان نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہو ئے کہا ہے کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے محفوظ فیصلے کی تاریخ کی تبدیلی نے ثابت کردیاتھاکہ فیصلہ سیاسی ہوگا، ماسٹرمائنڈ حکومت کے اتحادی باعزت بری ہوگئے ہیں، افسوس کہ آج بھی ویسے ہی فیصلے سامنے آئے جو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں سیکڑوں غریبوں کو چلا دیا گیا لیکن فیصلہ وہی روایتی ہے،استعمال ہونے والوںکو سزا اور اصل مجرموں کو آنچ بھی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلے کے بعد بلدیہ متاثرین کو شدید مایوسی ہوئی ہے،جو کیس کے اصل مجرم ہے جنہوں نے کروڑوں روپے بھتا وصول کیا ہے ان کو پو چھنے والا کوئی نہیں ہے۔انہوں نے عدالت عظمیٰ سے سانحہ بلدیہ کیس پر نظرثانی کرتے ہوئے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور سانحہ کے اصل قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔نیشنل ٹریڈ یونین کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ بلدیہ کیس کے فیصلے کو ہم یک طرفہ فیصلہ سمجھنے میں اس کیس میں بلدیہ فیکٹری کے ملازمین کو شریک ہی نہیں گیا ہے جبکہ 264افراد جو زندہ جلا دیے گئے ان کے لواحقین کو کیس میں شامل نہ کرنا سراسر نا انصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ بلدیہ کے حوالے سے ہونے والے فیصلے نے بہت سے سوالات پیدا کردیے ہیں۔ بلدیہ فیکٹری کے مالک نے موجودہ پاک سر زمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی کو 9 کروڑ روپے بلدیہ متاثرین کو تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے لیکن 8 سال بعد متاثرین کو 1روپیہ ادا نہیں کیا گیا، ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ وہ پاک سر زمین پارٹی کے لیڈر بننے ہوئے ہیں۔ فیصلے سے لگتا ہے کہ ایک کو ظالم اور دوسرے کو مظلوم ثابت کیا جا رہا ہے۔