اسٹیٹ بینک کی رپورٹ۔ اسباب بھی بتائے جائیں

280

پاکستان کے مرکزی بینک نے زری پالیسی جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی لہر برقرار ہے اور اسٹیٹ بینک شرح سود میں فی الحال کمی نہیں کرے گا اور سات فیصد پر برقرار رکھی جائے گی۔ مہنگائی میں اضافے کے کچھ اسباب بھی بتائے گئے ہیں جن میں بارش سے تباہی، فصلوں کو نقصان اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنے اقدامات کے نتیجے میں زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کی خبر بھی دی ہے۔ تاہم گورنر نے کے الیکٹرک کی وجہ سے پاکستانی برآمدات کے متاثر ہونے کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ کے الیکٹرک توکہیں موضوع گفتگو نہیں بنتی۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ ملک کے تاجر جن کی دس دس صنعتیں ہیں وہ ملک سے ان صنعتوں کو بنگلا دیش اور سری لنکا منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ چند برس قبل پاکستانی صنعتکاروں نے دبئی کا رخ کیا تھا۔ اسٹیٹ بینک دیکھے کہ کون سی چیز پاکستانی برآمدات کو متاثر کر رہی ہے۔ یہ ادارہ حکومت کو خرابی کی نشاندہی تو کر سکتا ہے۔ جب تک خرابی کی درست نشاندہی نہیں ہوگی اس وقت تک معاملات بہتر ہونے کے امکانات نہیں ہوں گے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تاجر و صنعتکار خود تنگ آکر کے الیکٹرک کے متبادل بجلی کمپنی بنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ باتیں اگر صرف باتیں رہیں تو افسوسناک معاملہ ہوگا۔ تاجروں کو متبادل ادارہ بنانے میں فائدہ بھی ہوگا اور توانائی کی بروقت فراہمی بھی ممکن ہو گی لیکن اسٹیٹ بینک کا رویہ بھی عجیب ہے وہ ایک دو تنقیدی جملوں کے سوا پوری رپورٹ میں حکومت اور اسٹیٹ بینک کے اقدامات سے اچھے نتائج کی امید ظاہر کرتا ہے جبکہ ملک میں مہنگائی کے اصل اسباب اور بدانتظامی کا بہت کم ذکر کیا جاتا ہے۔ استیٹ بینک کو درست تصویر پیش کرنی چاہیے۔برسہا برس سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گیا۔ آنے والے دنوں میں برآمدات میں اضافہ ہوگا اور ملکی ترقی اور شرح نمو میں بہتری کے واضح آثار ہیں۔ لیکن آج تک ایسے کوئی آثار عوام نہیں دیکھ سکے۔