فوج اور سیاست۔ادارے اپنے دائروں میں رہیں

656

جدید ٹیکنالوجی دور میں تاخیر سے ملنے والی خبروں کے مطابق گزشتہ ہفتے پاک فوج کے سربراہ سے ہونے والی ملاقات کی خبر اب جاری ہوگئی۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ پارلیمانی لیڈروں نے آرمی چیف سے ملاقات کی تھی۔ جاری ہونے والی خبر کے مطابق پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسٹیں، حالیہ قانون سازی انتخابی اصلاحات یا نیب معاملات میں ہماری کوئی مداخلت نہیں۔ ہمیں آپ کے کام میں مداخلت کا شوق نہیں۔ آج کی منتخب حکومت جو کہے گی، کریں گے، کل آپ ہوں گے تو آپ کا ساتھ دیں گے۔ فساد کی اجازت نہیں دیں گے۔ گزشتہ ہفتے کی ملاقات کی خبر اب جاری کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ اس بارے میں باز پرس یا استفسار پارلیمنٹ کے ارکان بھی نہیں کر سکتے۔ البتہ اپوزیشن رہنمائوں نے انکشاف کیا ہے کہ ہمیں تو گلگت، بلتستان کے انتخابات اور حساس معاملات پر گفتگو کے نام پر بلایا گیا تھا اور وزیراعظم ملاقات سے غائب تھے۔ تاخیر پر توبس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ آر ٹی ایس کی طرح خبر کے اجراء کے نظام میں بھی کوئی مسئلہ تھا کہ تاخیر سے جاری ہوئی۔ اس مسئلے کو تو چھوڑیں بات آگے بڑھائیں کہ اگر یہ گزشتہ ہفتے کی باتیں ہیں اور خبروں میں لکھا بھی یہی گیا ہے تو ان میں وہ باتیں کیسے شامل ہیں جن کا بعد میں ہونے والے واقعات مثلاً میاں نواز شریف کی تقریر وغیرہ کا معاملہ شامل ہو گیا۔ فوج کو تو میاں صاحب نے ہی سیاست میں گھسیٹا ہے۔ ویسے یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں فوج کبھی گھسیٹنے سے سیاست میں نہیں آئی۔ اگر پاک فوج اتنی کمزور اور ہلکی ہوتی تو پاکستان کا بڑے بڑے دشمنوں سے تحفظ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاک فوج سے شکایات بھی ہیں لیکن یہ اور ایسے معاملات تو پیش آ ہی جاتے ہیں۔ فوج نے جب بھی سیاست میں مداخلت کی خود کی اور سوچ سمجھ کر کی۔ اس کے نتائج بھی بھگتے اور اسی وجہ سے ملک میں ہر تبدیلی پر فیصلے میں نام فوج کا لیا جاتا ہے۔ عمران حکومت بھی بار بار فوج کا نام استعمال کر رہی ہے اور میاں نواز شریف نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ عمران خان سے نہیں ان کو لانے والوں سے لڑائی ہے۔ یہ لڑائی نواز شریف طویل عرصے سے لڑ رہے ہیں۔ جب کوئی تنازعہ نہیں ہوتا وہ خود فوج کے ساتھ تنازعہ کھڑا کر لیتے تھے۔ لیکن اپوزیشن حلقے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ تو یہی ہے کہ الیکشن 2018ء سے لے کر آج تک ہر معاملے میں حکومت کی پشت پر اصل طاقت کوئی اور ہے۔ اس طاقت کو گھسیٹا نہیں جا سکتا۔ جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویزمشرف۔ ان میں سے کس کو سیاست میں گھسیٹا گیا۔ اب بھی کوئی حکمنامہ تو فوج کی طرف سے نہیں آتا تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ فوج ہی عمران خان کی حکومت کے ہر حکم کے پیچھے ہے۔ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے یا بدنام کرنے کے حوالے سے معاملہ پیچیدہ ہے۔ کیونکہ جو یہ کہہ رہا ہے کہ فوج میرے ساتھ ہے وہ بھی سیاست میں فوج کو ملوث کراتا ہے اور جو یہ کہہ رہا ہے کہ فوج ہی نے موجودہ حکومت کو مسلط کیا ہے، وہ بھی فوج کا نام سیاسی معاملات میں مداخلت کے طور پر ہی لے رہا ہے۔ اور پارلیمانی لیڈرز کو طلب کرنا سیاست میں کودنا ہے یا نہیں اس کی وضاحت کوئی رہنما کر دے تو بہتر ہوگا۔اس پیچیدگی کو دور کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت کھل کر کہے کہ فوج ایک پیشہ ور پروفیشنل ادارہ ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ سیکورٹی امور اور قومی سلامتی کے معاملات میں فوج حکومت کے ساتھ ہے اور جو معاملات قومی سلامتی کے لیے اہم ہوتے ہیں ان پر فوج کی مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فوج خود یہ اعلان کر دے کہ ہم حکومت کے قومی معاملات میں فیصلوں اور احکامات کے پابند بھی ہیں اور اس کے ساتھ بھی لیکن حکومت کے ساتھ مل کر کسی سیاست دان یا کسی سیاسی پارٹی کو دبانے کا کام فوج نہیں کرے گی۔ آرمی چیف کے حوالے سے جاری شدہ خبر میں ایک اور اہم بات کہی گئی ہے کہ فساد کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس بات کی مزید وضاحت ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ فساد کی اجازت تو کسی حال میں نہیں دی جاسکتی۔ آیا فساد اپوزیشن کے احتجاج کو کہا گیا ہے یا یہ مبہم اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج کو اس وقت تک فساد نہیں کہا جاسکتا جب تک وہ قانون ہاتھ میں لے کر امن وامان کا مسئلہ پیدا نہ کردیں۔ احتجاج، تحریک لانگ مارچ، دھرنا وغیرہ سب جمہوری عمل ہیں۔ اپوزیشن جس رخ پر جا رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سارے پیغامات اسی کو دیے گئے ہیں۔ اسے یہ بھی معلوم ہوگا کہ پاکستان میں معاملات کس طرح چلائے جاتے ہیں۔ حکومت کون بنواتا ہے اور کون گرواتا ہے۔ اس سارے مسئلے میں یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ سارا مسئلہ حکومت اور اپوزیشن کا نہیں، بے چینی کہیں اور بھی ہوسکتی ہے۔ تو پھر وہاں سے بھی ڈوریں ہل رہی ہوں گی۔ کسی صورت میں یہ حالات ملک کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ اداروں کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔