متحدہ عرب امارات اور بحرین کے صہیونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد سے دونوں ممالک کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ گویا انہوں نے اپنے اور فلسطینیوں کے مفاد میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں یا ان کی راہ ہموار کردی ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں متحدہ عرب امارات کو امریکا کے جدید ترین ایف 35 طیاروں کی فراہمی کا بھی چرچا ہے۔ اس وقت سے بین الاقوامی سیاسی امور کے ماہرین اور تجزیہ کار مسلسل یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ متحدہ عرب امارات نے قضیہ فلسطین سے متعلق شیخ زاید مرحوم کے تاریخی موقف سے ہٹ کر صہیونی ریاست کو تسلیم تو کرلیا ہے، لیکن کیا اسرائیل اسے ایف 35 لڑاکا طیارے حاصل کرنے دے گا؟ اس سوال کا عملی جواب دینے کے لیے اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹس جو ایک طرح سے صہیونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے شریک اقتدار بھی ہیں، واشنگٹن پہنچ گئے ہیں۔ وہاں انہوں نے پینٹاگون میں امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر سے ملاقات میں مطالبہ دھرایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ خطے میں اسرائیل کی عسکری برتری قائم رکھنے کی یقین دہانی کرائے۔ ان کا اشارہ متحدہ عرب امارات کو ایف 35 لڑاکا طیاروں کی فراہمی ہی کی جانب تھا، کیوں کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل وہ واحد ملک ہے، جس کے پاس یہ امریکی طیارے موجود ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کا اعلان ہونے کے فوراً بعد صراحت کرچکے ہیں کہ وہ ابوظبی کو یہ طیارے حاصل کرنے نہیں دیں گے۔ مارک ایسپر نے اسرائیلی مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے بینی گینٹس سے کہا ہے کہ امریکی حکومت مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی عسکری برتری قائم رکھنے میں اس کی مدد کرے گی۔ یہ بات امریکا اور اسرائیل کے دفاعی تعلقات کا ایک اہم حصہ ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان متحدہ عرب امارات ہی نہیں، ان 5 اسلامی ممالک کے لیے بھی لمحہ فکر ہے، جو امریکی صدر کے بقول جلد صہیونی ریاست کو تسلیم کرلیں گے۔ مارک ایسپر نے اسرائیلی ہم منصب کو اپنی اس یقین دہانی سے ملکی اور فلسطینی مفاد کا راگ الاپنے والوں کے چہروں سے مخلصی کا نقاب نوچ ڈالا ہے۔ ان کی اسرائیل نوازی سورج کی طرح عیاں ہوگئی ہے۔