کشمیر اور سلامتی کونسل

205

پاکستان کی درخواست پر اسلامی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ کے نیویارک میں ہونے والے ایک خصوصی اجلاس میں اقوام متحدہ سے کہا گیا ہے کہ وہ بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند کرانے نیز بھارت پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے دبائو ڈالا جائے جن میں استصواب رائے کرانے کو کہا گیا ہے تاکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو اپنا حق خودارادیت استعمال کرنے کا موقع مل سکے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھارت کی جانب سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے کشمیر کا مسئلہ ہٹانے کے دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستانی نمائندے سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے کشمیر کو ختم کرنے کی بھڑک مار کے یا تو خود کو دھوکا دے رہے ہیں یا اپنے عوام سے دھوکا کر رہے ہیں۔ منیر اکرم کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کا گزشتہ دنوں تیار کیا جانے والا ایجنڈا قواعد و ضوابط کے مطابق طے کیا گیا تھا اور صرف کونسل کی اتفاق رائے ہی سے اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت نے پچھلے دنوں سلامتی کونسل سے کہا تھا کہ وہ اپنے ایجنڈے سے کشمیر کو ہٹائے تاکہ پاکستان کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس میں اس موضوع پر بات سے روکا جاسکے۔ سلامتی کونسل کی 2019 کی رپورٹ کے بارے میں اپنے بیان میں ہندوستان نے شکایت کی تھی کہ پاکستان کونسل میں فرسودہ ایجنڈے کے آئٹم پر بات چیت پر زور دیتا ہے جس کے لیے تمام معاملات کو مستقل طور پر کونسل کے ایجنڈے سے ہٹانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات لائق توجہ ہے کہ 5 ا گست 2019 سے جب ہندوستان نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے متنازع علاقے کو غیر قانونی طور پر اپنے ساتھ ضم کردیا تو پاکستان نے چین کے تعاون سے مسئلہ کشمیر کو تین بار سلامتی کونسل کے اندر اٹھایا ہے۔ تاہم دوسری جانب ہندوستان کا موقف ہے کہ انضمام کے اس یکطرفہ فیصلے نے مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کردیا ہے لہٰذا اس لیے اسے کونسل کے ایجنڈے سے ہٹا دینا چاہیے۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ سلامتی کونسل ہندوستانی دعوے کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ صرف مقبوضہ کشمیر کو ایک حل طلب تنازع کے طور پرپیش کرتی ہے بلکہ کنٹرول لائن (ایل او سی) کے دونوں اطراف فوجی مبصرین کی موجودگی بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا نتیجہ ہے جو پاکستان کے موقف کی واضح کامیابی ہے۔ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ سلامتی کونسل ہر سال مقبوضہ کشمیر کو اپنے ایجنڈے پر ’’ہندوستان پاکستان سوال‘‘ کے طور پر پیش کرتی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل اسے دونوں ممالک کے مابین متنازع علاقہ کے طور پر دیکھتی ہے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر کے سفارتی ذرائع کے مطابق ہندوستان طویل عرصے سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ’’بھارت پاکستان سوال‘‘ کو ہٹانے کی کوششیںکرتا رہا ہے لیکن بھارت اپنی ان مکروہ کوششوں کے باوجود کشمیر کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے جو پاکستان کی کامیاب ڈپلومیسی کا نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک سفارت کارنے گزشتہ دنوں ہندوستانی دعوے کو ’’اجنبی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی ایجنڈا آئٹم تب ہی ختم ہوسکتا ہے جب تنازع حل ہوجاتا ہے یا سلامتی کونسل اتفاق رائے سے ایسا کوئی فیصلہ کرے جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو ملک سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیے اتنا بے چین ہے وہ اپنے فرائض کو سنجیدہ لینے کے طریقہ کار کے بنیادی قواعد سے بھی واقف نہیں ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان ہر سال ’’بھارت پاکستان سوال‘‘ نامی ایجنڈا آئٹم کو برقرار رکھنے کی درخواست کرتا ہے جس کے تحت 1948 سے جموں و کشمیر کے معاملے پر نہ صرف مسلسل تبادلہ خیال کیا جاتا رہا ہے بلکہ اس حوالے سے کئی آپشن اور قیمتی تجاویز بھی سامنے آ چکی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم آگے بڑھ کر از خود اپنی ضروریات اور ترجیحات کا تعین نہیں کریں گے کسی تیسرے فریق کے لیے ایساکرنا یقینا ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔
اس امر سے ہرکوئی واقف ہے کہ جموں وکشمیر کے مسئلے کو سب سے پہلے بھارت خود ہی 20 جنوری 1948 کو سلامتی کونسل کے فورم پر لیکر گیا تھا اور اس کے بعد سے سلامتی کونسل جموں وکشمیر سے متعلق اب تک 16 قراردادیں منظور کر چکی ہے۔ حیرت بلکہ بھارت کی بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے کشمیر کے جس بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ مسئلے کو ہٹانے کا پروپیگنڈہ کررہا ہے اس کے متعلق سلامتی کونسل 2019 میں جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اپنی سالانہ رپورٹ کے پیراگراف 72 میں بھی واضح طور پر ذکرکرچکا ہے۔ اسی طرح ہندوستان اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کوبھی سلامتی کونسل کے زیر بحث ایجنڈا آئٹم کے تحت ہی دونوں ممالک میں تعینات کیاگیا تھا۔ یہ گروپ جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن کے ساتھ نہ صرف جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی باقاعدگی سے نگرانی کرتا ہے بلکہ کونسل کو وہاں کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ بھی رکھتا ہے۔ یہ ایک برسرزمین حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کشمیر میں مقیم ہیں اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی خبریں یو این ہیڈ کوارٹر اور سلامتی کونسل کو روزانہ کی بنیاد پر فراہم کرتے ہیں جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ تنازع کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے کا ایک فعال اور حل طلب مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا ہے۔