کراچی کے لیے با اختیار بلدیہ کی ضرورت

179

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ مقامی حکومتیں چوائس نہیں لازمی ہیں۔ بلدیاتی اختیارات صوبے یا وفاق کو دینا خلاف آئین ہے۔ کراچی کے موجودہ نظام سے عوام کو فائدہ نہیں ہو رہا۔ سارا کھیل اختیارات اور طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے۔ سندھ کا بلدیاتی نظام تین میں نہ تیرہ ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے بلدیاتی اداروں، اختیارات اور ان کی کارکردگی کے حوالے سے ریمارکس بروقت ہیں بلکہ یہ حسن اتفاق ہے کہ کراچی میں ایک طرف جماعت اسلامی شہر کو حقوق دینے کی مہم چلا رہی ہے اور مردم شماری، بلدیاتی ایکٹ، اداروں کو ایک اتھارٹی کے ماتحت کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی مہم کو دیکھ کر ایم کیو ایم بھی میدان میں آگئی اور انتظامیہ کی مدد سے سڑکیں بند کروا کر مظاہرہ کر ڈالا۔ لیکن عدالت عظمیٰ کے سربراہ تو کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے میئر نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ کراچی کا مسئلہ ہے کیا؟ چیف جسٹس نے بہت سے مسائل کی درست نشاندہی کی ہے لیکن کراچی صرف بلدیات کا نام نہیں ہے۔ یہ منی پاکستان ہے۔ اس میں ملک کے ہر علاقے کے لوگ رہتے ہیں۔ سب پاکستانی ہیں یہ سب ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں لیکن پہلی خرابی یہ ہوئی کہ کراچی کی آبادی کو سابقہ مردم شماری میں ڈیڑھ کروڑ کم کر دیا گیا۔ جب آبادی کم ظاہر کی جائے گی تو وسائل کی تقسیم، حلقہ بندیاں، سیٹیں وغیرہ سب کم ہو جائیں گے، فنڈز کم ہو جائیں گے۔ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ کراچی پر متحدہ ہی کو مسلط رکھا ہوا ہے۔ جس نے اس شہر کو ہر دور میں صرف تباہ کیا ہے۔ پارٹی لوٹ مار اور دہشت گردی کرتی رہی اور بلدیاتی اور پارلیمانی لیڈرز تمام بھتہ خوروں اور قاتلوں کو تحفظ دیتے رہے۔ حکومتیں ان کی سیٹوں کی تعداد کی وجہ سے بلیک میل ہو تی رہیں۔ پھر یہ جو چاہتے کرتے تھے۔ ان کی موجودگی میں کراچی کے درجن بھر شہری ادارے بلدیہ کراچی سے لے کر سندھ کے کنٹرول میں دے دیے گئے۔ اس کی نشاندہی چیف جسٹس نے کی ہے۔ محض اختیارات نہیں ادارے بھی صوبائی حکومت کو دے دیے گئے ہیں یہ اختیارات کی منتقلی ہی تو ہے۔ چیف جسٹس کے تجزیے کے مطابق کراچی کو اس کے موجودہ میئر نے تباہ کیا، حکومت سندے نے مداخلت کرکے نظام کا بیڑہ غرق کیا اور بلدیاتی اداروں کے درمیان ٹکرائو کی کیفیت پیدا کی۔ ایسی کھچری پکی کہ سندھ حکومت شہری امور کا ملبہ بلدیہ پر ڈالتی رہی۔ بلدیہ سالڈ ویسٹ اور اختیارات کے نام پر کام نہ کرنے کے بہانے تراشتی رہی اور یوں چار سال گزار دیے۔ اگر چیف جسٹس مرض کی نشاندہی کر چکے اور ان کے نزدیک اصل وجہ اداروں میں رابطے کی کمی ہے۔ یعنی وہ بھی کراچی کے لیے میٹرو پولیٹن بلدیہ ہی کو حل سمجھتے ہیں تو مسئلہ حل کرنے کے لیے فیصل جلد دیں۔ اس طرح اداروں کے درمیان کھینچا تانی ختم ہو جائے گی اور شہریوں کے مسائل ایک اتھارٹی کے ذریعے حل ہوں گے۔ یہ ایک اتھارٹی وہی ہے جس کا مطالبہ عبدالستار افغانی نے کیا تھا۔ اس کی پاداش میں ان کی بلدیہ مسلم لیگ کے غوث علیشاہ نے توڑ دی تھی۔ پھر جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان نے کراچی میں پہلی مرتبہ عملاً میٹرو پولیٹن کارپویشن یا سٹی گورنمنٹ کا نظام وضع کر کے دکھایا اور چلایا بھی۔ انہوں نے بڑی محنت سے شہری اداروں کو سٹی گورنمنٹ کے ماتحت کیا۔ بااختیار بلدیاتی کا مطلب تو یہ ہے کہ شہر کی پولیس بھی اس کے میئر کے ماتحت ہونی چاہیے اور دیگر ادارے بھی۔ چیف جسٹس نے درست کہا کہ کراچی کا بلدیہ نظام عوام کو فائدہ نہیں دے رہا سارا کھیل اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے۔ البتہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ عین بلدیاتی انتخابات کے موقع پر یہ کیس از خود اٹھ گیا ہے اور اس میں تیزی آگئی ہے یا کوئی اور وجہ ہے کہ اب کسی کو اختیارات کے ساتھ شہر کی قیادت پر براجمان کرانے کی تیاری ہے۔ تمام ادارے اپنے اپنے حصے کے کام کریں گے۔ عدلیہ سے اختیارات کی تقسیم درست کرانے کا کام لیا جائے گا۔ من پسند افراد کو جتوانے اور میئر وغیرہ بنوانے کے ذمے داران تو تبدیل نہیں ہوسکتے۔ وہی لوگ یہ کام کریں گے جو پہلے کر رہے تھے۔ چیف جسٹس نے ایک سوال بجا طور پر اٹھایا ہے کہ کیا ضمانت ہے کہ اختیارات ملنے کے بعد مقامی حکومت کام کرائے گی۔ لیکن چیف جسٹس کو اگر بتایا نہیں گیا تو ان کے شعبے کے ذمے داران بتا دیں کہ کراچی میں اختیارات اور ان کی مرکزیت مسئلہ ضرور ہیں لیکن حقیقی منتخب قیادت اصل ضرورت ہے۔ کم سے کم اختیارات اور وسائل کے ساتھ عبدالستار افغانی نے میئر شب سنبھالی اور شہریوں سے کوئی نیا ٹیکس وصول کیے بغیر اور کسی ٹیکس میں اضافہ کیے بغیر بلدیہ کے بجٹ کو کروڑوں سے اربوں تک پہنچا دیا۔ پانی کے منصوبے بنائے۔ ماس ٹرانزٹ کے منصوبے بنائے لیکن سندھ حکومت نے سب رکوا دیے۔ پھر کم وسائل اور کم اختیارات کے ساتھ نعمت اللہ خان سٹی ناظم بنے۔ انہوں نے اختیارات بھی حاصل کیے اور کوئی ٹیکس لگائے بغیر کراچی کا بجٹ کھربوں تک پہنچایا۔ پانی کے منصوبے، پارکس، اسپتال، کالج، کھیل کے میدان، سڑکیں، لائٹیں، امن وامان سب ہی کچھ دو ڈھائی سال میں دے دیا۔ ابتدائی ڈیڑھ سال تو نظام کو کھڑا کرنے میں لگے لیکن انہوں نے ایک دن بھی ضائع نہیں کیا۔ایک دفعہ بھی دونوں نمائندوں نے اختیارات یا فنڈز کا رونا نہیں رویا۔ یہاں پھر سندھ کی حکومت آڑے آئی جس میں اتحادی متحدہ قومی موومنٹ تھی اور اس نے نعمت اللہ خان کے چاروں منصوبوں کو رکوایا اور مجوزہ منصوبوں کو آگے ہی نہیں بڑھنے دیا۔ چیف جسٹس ان حقائق کو سامنے رکھیں کام کی ضمانت تو تین مرتبہ جماعت اسلامی دے چکی۔