علامہ یوسف القرضاوی
قلبی گناہوں میں جو کبائر ہیں ان میں سے تین مہلکات وہ بھی ہیں، جن سے اِس حدیث میں محتاط رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نبیؐ نے فرمایا: تین باتیں مہلکات میں شامل ہیں۔ ایک: طمع و لالچ، جس کی پیروی کی جائے۔ دوسری: خواہشِ نفس، جس کے پیچھے چلا جائے اور تیسری: آدمی کی خود پسندی (اپنے آپ میں گم ہو جانا ہے)۔ (طبرانی)
طمع و لالچ
طمع و لالچ کی مذمت میں کئی احادیث آئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
٭طمع و لالچ اور ایمان، ایک مسلمان بندے کے دل میں کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ (احمد، بخاری)
٭ ایک آدمی میں سب سے زیادہ بْری چیز اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہ ہے شدید حِرص اور انتہائی بزدلی ہے۔ (بیہقی)
٭ ظلم سے بچ کر رہو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اور طمع و لالچ سے بچو، کیوں کہ اس نے تم سے پہلے والے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ اسی نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کا خون بہائیں اور اللہ کے محارم (جنہیں حرام یا ممنوع کر دیا گیا) کو حلال سمجھیں۔ (مسلم)
٭ طمع و لالچ سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں وہ اسی کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ طمع و لالچ ان کو قطع رحمی کا حکم دیتا تھا تو یہ اسے قطع کر دیتے تھے۔ وہ انہیں بخل کا حکم دیتا تھا تو بخل کرتے تھے اور وہ انہیں گناہوں کا حکم دیتا تھا تو وہ گناہ کرتے تھے۔ (ابودائود، حاکم)
علما کہتے ہیں کہ شْحّ (طمع و لالچ) دراصل بخل اور حِرص کے مجموعے کا نام ہے، چنانچہ اس کی ممانعت حِرص سے بھی زیادہ شدید ہے۔ بْخل صرف مال کے حوالے سے ہوتا ہے اور شْحّ کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو نفس کو مال خرچ کرنے، کسی سے بھلائی کرنے یا کسی بھی عبادت میں کشادہ دلی سے روکتی ہے۔ اور شْحّ ہَالِع (یعنی شدید طمع و لالچ) وہ ہوتی ہے جو اپنے صاحب کو پریشانی اور اضطراب سے دوچار کرتی ہے۔ اپنی حرص کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہوتا ہے کہ اپنا حق کس طرح اس سے نکالے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حرص و لالچ اللہ کی معرفت کے ساتھ کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ سخاوت اور مال کے انفاق میں جو چیز مانع ہوتی ہے، وہ غریبی کا ڈر ہے۔ اور یہ اللہ سے غافل رہنا اور اس کے وعدوں پر یقین نہ ہونا ہے۔ اسی وجہ سے حدیث نے ایک دل میں ایمان اور حرص و لالچ کے جمع ہونے کی نفی فرمائی ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے، بلکہ ان میں سے ایک جاتی ہے تب دوسری آتی ہے۔
شدید خواہشِ نفسانی
حدیث میں جن مہلکات کا ذکر ہے، ان میں سے ایک ’شدید خواہشِ نفسانی‘ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس سے قرآن نے بھی متعدد مقامات پر محتاط رہنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا دائودؑ سے فرمایا: ’’اور خواہشِ نفس کی پیروی مت کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی‘‘۔
خاتم النبیینؐ سے فرمایا: ’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقِ کار اِفراط و تَفریط پر مبنی ہے‘‘۔ (الکہف: 28)
مزید فرمایا: ’’اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر، بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے‘‘۔ (القصص:50)
ایک قوم کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپّہ لگا دیا ہے اور یہ اپنی خواہشات کے پیرو بنے ہوئے ہیں‘‘۔ (محمد: 16)
قرآن نے یہ بات بیان کی ہے کہ خواہشِ نفس کی پیروی آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ وہ آدمی کو علم کے باوجود گمراہ کر دیتی ہے۔ وہ اس کی بصیرت و بصارت کو چھین لیتی ہے۔ پھر وہ نہ کچھ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ فرمایا: ’’کیا تم نے کبھی اْس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟‘‘ (الجاثیہ: 23)
یہی وجہ ہے کہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: زمین میں بدترین معبود، جس کی عبادت کی جاتی ہے، خواہشِ نفس ہے۔
قرآن نے جنت میں داخل ہونے کے جو اسباب بیان کیے ہیں، ان میں خواہشِ نفس کی پیروی سے بچنا سرفہرست ہے: ’’اور جس نے اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بْری خواہشات سے دور رکھا، جنت اس کا ٹھکانا ہوگی‘‘۔ (النازعات: 40-41)
خودپسندی
تیسری مہلک چیز جو حدیث میں بیان ہوئی ہے، وہ خودپسندی ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی اپنے آپ میں مگن رہے۔ جو شخص خودپسندی میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ اپنے عیبوں کو نہیں دیکھ پاتا، خواہ وہ کتنے ہی بڑے ہوں۔ وہ اپنے محاسن اور زینت کو خوردبین سے دیکھتا ہے اور انہیں بڑا سمجھتا اور بڑا کر کے پیش کرتا ہے۔
قرآن نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ خودپسندی نے کس طرح مسلمانوں کو ہزیمت سے دوچار کردیا، حتیٰ کہ وہ دوبارہ اپنی رشد کی حالت میں اور اپنے رب کی طرف لوٹے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غزوہ حنین کے روز (اس کی دست گیری کی شان تم دیکھ چکے ہو)… تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرہ تھا، مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اْتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے‘‘۔ (التوبہ: 25-26)
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ وہ برائی جو تمہیں پریشان کر دے، اس بھلائی سے بہتر ہے جو تمہیں خودپسندی میں ڈال دے۔
ابن عطا نے بھی یہی معنی لیے ہیں اور اسی مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کسی عبادت کا راستہ کھول دیتا ہے، مگر قبولیت کا دروازہ نہیں کھولتا۔ اور کبھی وہ تمہارے لیے ایسی معصیت مقدر کر دیتا ہے جو تمہارے منزلِ مقصود پر پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ وہ معصیت جس پر تم اپنے آپ کو ذلیل محسوس کرو اور انکسار اختیار کرو، بہتر ہے اس عبادت سے جو تمہارے اندر خودپسندی اور استکبار پیدا کرے۔
ریاکاری
افعالِ قلوب میں جو کبیرہ گناہ ہیں، ان میں ایک وہ ریا ہے جو اعمال کو ضائع کر دیتا ہے اور اسے اللہ کے ہاں قبولیت سے محروم کر دیتا ہے، اگرچہ اس کا ظاہر لوگوں کے لیے کتنا ہی خوب صورت اور حسین ہو۔
اللہ تعالیٰ منافقین کے بارے میں فرماتا ہے: ’’محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔ (النساء: 142)
دوسری جگہ فرمایا: ’’پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔ (الماعون: 4-7)
ریاکار شخص کے انفاق کی تصویر کشی اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے: ’’اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی‘‘۔ (البقرہ: 264)
احادیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ ریا ایک طرح کا شرک ہے۔ ریاکار کا اپنے عمل سے اصل مقصود اللہ کی رضا نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس سے راضی ہوں، اس کی تعریف کریں اور اس کی شرافت و بزرگی کے گْن گائیں۔
ایک حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں شرک سے بالکل بے نیاز ہوں۔ جس نے کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کیا تو میں اسے اس کے شریک کے سپرد کر دوں گا‘‘۔
اور ایک روایت میں ہے: ’’میں اِس سے بَری ہوں اور اْس کا عمل اس کے شریک کے لیے ہے‘‘۔
اس سلسلے میں جو مشہور احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جسے امام مسلم نے ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ قیامت کے دن تین آدمیوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا کہ انہیں اوندھے منہ آگ میں پھینک دیا جائے۔ ان میں سے ایک مجاہد اور شہید ہوگا، دوسرا وہ ہوگا جس نے علم حاصل کر کے دوسروں کو تعلیم دی ہوگی اور وہ قرآن پڑھنے والا ہوگا۔ اور تیسرا وہ شخص ہوگا جس نے اپنا مال بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا ہوگا۔ مگر اللہ تعالیٰ، جو اْن کی نیتوں اور رازوں سے آگاہ ہے، سارے لوگوں کے سامنے ان کو جھٹلائے گا اور ان میں سے ہر ایک سے کہے گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ تم نے جو کچھ کیا تھا وہ تو اس لیے کیا تھا کہ دنیا میں لوگ تمہاری تعریف کریں، اور تمہاری وہ تعریف ہو چکی ہے۔
انسان کی طرف سے اس طرح کی جعلسازی، عام طور پر بھی بدترین عمل اور شدید ترین جرم ہے۔ پھر جب اس طرح کی جعل سازی مخلوق کی طرف سے خالق پر ہو تو اس کا جرم اور زیادہ ناپسندیدہ اور گھنائونا بن جاتا ہے۔ یہ اس شخص کا عمل ہے جو لوگوں کو راضی کرنے کے لیے عمل کرتا ہے اور جھوٹ بنا کر لوگوں کو دکھاتا ہے کہ وہ لوگوں کے رب کو راضی کر رہا ہے۔ تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس دن شرمندہ اور ذلیل کرے جب دنیا کے سارے راز کھولے جائیں گے۔ پھر اسے اوندھے منہ آگ میں پھینک دیا جائے گا۔