افکار سید ابوالاعلی مودودیؒ

143

ظاہر و باطن
درحقیقت میں تو اس کا قائل ہوں کہ بندۂ مومن کو ہر اُس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے جو خدا اور رسولؐ نے دیا ہو اور یہ بھی مانتا ہوں کہ دین انسان کے باطن اور ظاہر دونوں کو درست کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جو چیز میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مقدم چیز باطن ہے، نہ کہ ظاہر۔ پہلے باطن میں حقیقت کا جوہر پیدا کرنے کی فکر کیجیے، پھر ظاہر کو حقیقت کے مطابق ڈھالیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے اُن اوصاف کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو اللہ کے ہاں اصلی قدر کے مستحق ہیں اور جنہیں نشوونما دینا انبیا علیہم السلام کی بعثت کا اصلی مقصود تھا۔ ظاہر کی آراستگی اول تو ان اوصاف کے نتیجے میں فطرۃً خود ہی ہوتی چلی جائے گی اور اگر ان میں کچھ کسر رہ جائے تو تکمیلی مراحل میں اس کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے۔ (اسلام کی اخلاقی بنیادیں)
٭…٭…٭
روح اور جسم
فلسفۂ و مذہب کی دنیا میں عام طور پر جو تخیل کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ روح اور جسم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دونوں کا عالم جُدا ہے۔ دونوں کے تقاضے الگ بلکہ باہم مخالف ہیں۔ ان دونوں کی ترقی ایک ساتھ ممکن نہیں ہے۔ روح کے لیے جسم اور مادے کی دنیا ایک قیدخانہ ہے۔ دنیوی زندگی کے تعلقات اور دلچسپیاں وہ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ہیں جن میں روح جکڑی جاتی ہے۔ دنیا کے کاروبار اور معاملات وہ دلدل ہیں جس میں پھنس کر روح کی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ اس تخیل کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ روحانیت اور دنیاداری کے راستے ایک دوسرے سے بالکل الگ ہو گئے جن لوگوں نے دنیا داری اختیار کی وہ اول ہی قدم پر مایوس ہو گئے کہ یہاں رُوحانیت ان کے ساتھ نہ چل سکے گی۔ اس چیز نے ان کو مادہ پرستی میںغرق کر دیا۔ معاشرت، تمدن، سیاست، معیشت غرض دنیوی زندگی کے سارے شعبے روحانیت کے نُور سے خالی ہو گئے، اور بالآخر زمین ظلم سے بھر گئی۔ دوسری طرف جو لوگ رُوحانیت کے طلب گار ہوئے، انہوں نے اپنی رُوح کی ترقی کے لیے ایسے راستے تلاش کیے جو دنیا کے باہر ہی باہر نکل جاتے ہیں، کیونکہ ان کے نقطۂ نظر سے رُوحانی ترقی کا کوئی ایسا راستہ تو ممکن ہی نہ تھا جو دنیا کے اندر سے ہو کر گزرتا ہو۔ ان کے نزدیک رُوح کو پروان چڑھانے کے لیے جسم کومضحمل کرنا ضروری تھا۔ اس لیے انہوں نے ایسی ریاضتیں ایجاد کیں جو نفس کو مارنے والی اور جسم کو بے حِس و بیکار کر دینے والی ہوں۔ روحانی تربیت کے لیے جنگلوں، پہاڑوں اور عزلت کے گوشوں کو انہوں نے موزوں ترین مقامات سمجھا، تاکہ تمدن کا ہنگامہ گیان دھیان کے مشغلوں میں خلل نہ ڈالنے پائے۔ رُوح کے نشوونما کی کوئی صورت انہیں اس کے سوا ممکن نظر نہ آئی کہ دنیا اور اس کے دھندوں سے دستکش ہو جائیں اور ان سارے رشتوں کو کاٹ پھینکیں جو اسے مادّیات کے عالم سے وابستہ رکھتے ہیں۔
پھر جسم و روح کے اس تضاد نے انسان کے لیے کمال کے بھی دو مختلف مفہوم اور نصب العین پیدا کر دیے۔ ایک طرف دنیوی زندگی کا کمال، جس کا مفہوم یہ قرار پایا کہ انسان صرف مادی نعمتوں سے مالا مال ہو، اور اس کی انتہا یہ ٹھہری کہ آدمی ایک اچھا پرندہ، ایک بہترین مگرمچھ، ایک عمدہ گھوڑا اور ایک کامیاب بھیڑیا بن جائے۔ دوسری طرف رُوحانی زندگی کا کمال، جس کا مفہوم یہ قرار پایا کہ انسان کچھ فوق الفطری طاقتوں کا مالک ہو جائے۔ اور اس کی انتہا یہ ٹھہری کہ آدمی ایک اچھا ریڈیوسیٹ، ایک طاقتور دوربین اور ایک نازک خوردبین بن جائے یا اس کی نگاہ اور اس کے الفاظ ایک پُورے دواخانے کا کام دینے لگیں۔ (اسلام کی نظام حیات)