سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے مسلم فیملی قانون ترمیمی بل کو متفقہ طور پر مسترد کردیا جبکہ اقلیتوں سے متعلق بل کو اقلیتی امور سے متعلق کمیٹی میں بھجوانے کی سفارش کی گئی۔ کمیٹی کے رکن حافظ عبدالکریم نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں پہلے مسلمانوں کو تو حقوق دیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے گوردواروں کی تعمیر پر 14 ارب روپے خرچ کر دیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں تو کوئی اگر توہین رسالت کرتا ہے تو وہ ویزا لے کر بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ آپ اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ انہیں تمام حقوق حاصل ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اگر کچھ ہندو لڑکیاں ازخود اسلام قبول کرکے مسلمان لڑکے سے شادی کر لیں تو سارے ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ حقوق اقلیتوں کو پاکستان میں مل رہے ہیں۔ ایسا بل لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس بل کے حوالے سے فی الحال تو سینیٹ کے اراکین نے گرفت کر لی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے بلکہ تشویش ناک ہے کہ پاکستان میں حکمران، ارکان اسمبلی، میڈیا، سماجی تنظیمیں، نام نہاد سول سوسائٹی، موم بتی مافیا وغیرہ یہ سب صرف ہندوئوں، عیسائیوں اور توہین رسالت کرنے والوں مذہب کا مذاق اڑانے والوں کے ہمدرد کیوں ہیں۔ کیا یہ لوگ اندر سے خود بھی ان ہی مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کبھی قادیانی کی ہمدردی، کبھی ہندو لڑکی کے مسلمان ہونے پر اسے زبردستی کی شادی کہا جاتا ہے۔ یہ ارکان اسمبلی اور وڈیرے تو بغیر شادی زبردستی اپنے ہی گائوں سے بچیاں اغوا کرتے ہیں اس وقت حال یہ ہے کہ پاکستان کی بھاری مسلم اکثریت حکمران اقلیت کی وجہ سے شدید دبائو کا شکار ہے اور سب کے پیٹ میں اقلیتوں کا درد اٹھا ہوا ہے۔حکمران قادیانی مشیر لگوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اب بھی بہت سے قادیانی اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ اتفاق سے جمعہ ہی کے اخبارات میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا بیان شائع ہوا ہے کہ قادیانی اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں انہیں کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔ پاکستان میں قانونی طور پر قادیانیوں کو اہم مناصب پر نہیں رکھا جا سکتا لیکن اس معاملے میں کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی ہے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ قادیانی خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں تو ان کے بارے میں ثبوت لانا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ جب حکومت، عدالت اور ملک کے مقتدر حلقے انصاف نہیں کریں گے۔ اور ناانصافی ہوتے دیکھیں گے جو ناانصافی کی حمایت کے مترادف ہے تو کوئی ردعمل تو آئے گا پھر ملک میں انتشار ہی ہوگا۔