کراچی سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کی ایک جھلک نے اہل پاکستان کے احساس کو جگایا یا نہیں، اہل کراچی کو سر سے پاؤں تک لرزا کر ضرور رکھ دیا۔ جس شہر کی صرف لیاقت آباد المعروف لالو کھیت کی مارکیٹ، پورے لاہور کی ساری مارکٹوں کے کل ٹیکسوں سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہو تو شہر بھر کے بازار کتنا ٹیکس ادا کرتے ہوں گے۔ ملک کے ایک معروف صحافی جو اگر کراچی سے نہیں تو اہل کراچی کے لیے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے، ایک ٹی وی شو میں کراچی کی مارکٹوں سے ادا ہونے والے ٹیکسوں کا ذکر کر کے اس بات کے معترف نظر آئے کہ کراچی کے ایک ایسے علاقے کی مارکیٹ جس کے اردگرد متوسط طبقے سے بھی کہیں نیچے زندگی گزارنے والے افراد لاکھوں کی تعداد میں اپنی زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں اور جس مارکیٹ میں چند بڑے شاپنگ مالوں کے، سارے کاروباری دکانیں کھوکھوں جیسی ہیں، اس ایک مارکیٹ سے جمع ہونے والا ٹیکس پورے لاہور کی مارکٹوں سے جمع ہونے والے ٹیکسوں سے کہیں زیادہ ہے جبکہ لاہور کی مارکٹوں میں ایک ایسی مارکیٹ بھی ہے جو ملک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جس سے پورے پنجاب اور کے پی کے تک کو مال سپلائی ہوتا ہے اور جس کے گرداگرد لاہور کا سب سے امیر طبقہ رہتا ہے نیز لاہور کی یہ مارکیٹ جو ملک کی سب سے بڑی مارکیٹ سمجھی جاتی ہے اس سے وصول ہونے والا ٹیکس 19 کروڑ روپے ہے جبکہ کراچی کا ایک پلازہ جس کا نام فورم پلازہ ہے وہ سوا 3 ارب روپے سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جس شہر کا صرف ایک پلازہ سوا 3 ارب روپوں سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہو اور ایک غریب آبادی کے درمیان واقع آبادی کا بازار 94 ارب، جو لاہور کے بازاروں کے کل ٹیکس سے بھی کہیں زیادہ ہو، اس شہر کی اگر حالت یہ ہو کہ وہ کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہو، جس میں ٹرانسپورٹ کا سرے سے کوئی سسٹم ہی نہ ہو، جہاں کی سڑکوں اور چاند کی زمین میں کوئی فرق ہی نہ رہ گیا ہو، جہاں کے نوجوانوں پر کوٹا سسٹم لگا کر ان کا معاشی قتل عام کیا گیا ہو، جہاں کے بسنے والے مقامی پولیس میں نہ لیے جاتے ہوں، جس شہر کے لوگوں کو اس قابل بھی تصور نہ کیا جاتا ہو کہ وہ بلدیاتی نظام کی مدت مکمل ہوجانے کے بعد کمشنر بنائے جا سکتے ہوں، جن کو ننگا بھوکا کہنے والوں پر پورا پاکستان منہ میں تالے ڈال کے بیٹھا رہتا ہو اور جہاں کے باسی را کے ایجنٹ تصور کیے جاتے ہوں وہاں کے لوگ اگر اتنے ملک دشمن ہونے کے باوجود اپنی ایک دو مارکٹوں سے نہایت دیانتداری کے ساتھ پورے پاکستان کے بازاروں سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہوں تو یہ خستہ حال اچھے یا جن کے پاس کھیتوں کھلیانوں، ملوں اور کارخانوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں، وہ بہتر ہیں۔جو شہر پاکستان اور اہل پاکستان کو پال رہا ہو، اس کی حالت زار کچرا کنڈی بنا کر رکھ دیا جانا اگر پاکستان کے وفاق کی نظر میں انسانیت کی معراج ہے تو یہ معراج اسے مبارک۔ ممکن ہے کہ وفاق صوبائی حکومت کو ذمے دار ٹھیرائے تو میرا استدلال یہ ہوگا کہ پاکستان کی ہر مارکیٹ جو ٹیکس بھی ادا کرتی ہے وہ صوبوں کو نہیں وفاق کے کھاتے میں جاتا ہے۔
ان تمام باتوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو کراچی کا اصل مسئلہ نہ امن و امان ہے اور نہ ہی صرف سیاسی۔ اگر بات محض امن و امان کی ہوتی تو 40 سال سے موجود رینجرز کس لیے رکھی گئی ہے اور نام بدل بدل کر آپریشن در آپریشن کے نتائج ہر مرتبہ صفر کیوں نکلتے ہیں۔ اگر مسئلہ سیاسی ہے تو اس مسئلے کے لیے عسکری طاقت کا استعمال کیوں اور اگر مسئلہ ایم کیو ایم تھی تو اب وہ اسے ختم کرنے کے سب کچھ ٹھیک ہو کر نہیں دے رہا۔ ثابت ہوا کہ مسئلے وہ نہیں جو بار بار بیان کیا جاتا ہے، مسئلہ کراچی کے وسائل پر غالب آنے کا ہے۔ سندھ کے سیاسی وڈیرے، ملک کی سیاسی پارٹیاں اور کراچی میں موجود عسکری قوتیں کراچی کے مسائل سے زیادہ کراچی کے وسائل میں دلچسپی لیتی نظر آتی ہیں جو ہر مسئلے سے بڑے مسئلے کا روپ دھارتا جا رہا ہے۔بات محض امن و امان کی ہوتی تو اس شہر کی پولیس کو برطانیہ جیسی پولیس بنایا جاسکتا تھا، مسئلہ سیاسی ہوتا تو بلا امتیاز ہر پارٹی سے صرف عسکری ذہن رکھنے والوں کو سمندر برد کیا جا سکتا تھا اور اگر کراچی کی سب سے بڑی پارٹی ہی ہر مسئلے کے حل کی راہ میں رکاوٹ تھی تو 2018 کے بعد کراچی کے تمام مسائل حل ہوجانے چاہئیں تھے۔
پورا پاکستان ہی نہیں، دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ہر لحاظ سے کراچی سے کہیں زیادہ ان تمام بیماریوں کا شکار ہے جس کو جواز بنا کر کراچی میں سیاسی وڈیروں، جماعتوں اور عسکری قوتوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جن کا کراچی ہی کے طواف اور کراچی کی سیاسی جماعتوں کو کبھی گرانا اور کبھی اٹھانے کا ایک سلسلہ ہے جس کا کوئی اختتام نظر آکر ہی دیتا۔ اگر کراچی کو کبھی کسی جماعت اور کبھی کسی پارٹی کے حوالے کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو اس شہر کے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکیں گے اور ایک ایسا شہر جو اس ناگفتہ بہ حالت میں بھی پورے پاکستان کا پالن ہار بنا ہوا ہے، کہیں بین الاقوامی قوتوں کی آماج گاہ بن کر نہ رہ جائے۔