عدالت عظمیٰ کے حکم پر سانحہ آرمی پبلک اسکول رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے۔ جس کے مطابق سانحے کا سبب سیکورٹی کی ناکامی تھی اس کی وارننگ موجود تھی گارڈز مزاحمت کرتے تو اتنا جانی نقصان نہیں ہوتا۔ اس سانحہ اے پی ایس نے ضرب عضب کی کامیابی کو داغدار کردیا۔ چیف جسٹس جسٹس گلزار نے کہا کہ عوام ہی محفوظ نہیں تو اتنی بڑی سیکورٹی کیوں؟ ہر بڑے سانحے کا ذمے دار چھوٹے عملے کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ حکومت کارروائی کرے ورنہ ہم کریں گے۔ واقعہ کس کی وجہ سے ہوا پتا چلنا چاہیے۔ آرمی پبلک اسکول کا سانحہ اتنا ہولناک تھا کہ شاید دنیا کے کسی ملک میں ایک اسکول کے بچوں کو جمع کرکے دن کی روشنی میں قتل عام نہیں کیا گیا ہو گا۔ ملک میں سیکورٹی اداروں کے نام پر قائم ادارے میں ایسا واقعہ ہوجائے اور پورا ملک ٹس سے مس نہ ہو۔ اس واقعے کے بعد بھی شہری آزادیاں ہی سلب کی گئیں۔ یہ عجیب رویہ ہے۔ جنرل پرویز پر ائر پورٹ کے قریب حملے کے منصوبے کا الزام لگا اور ملک بھر کے پیٹرول پمپس جنرل پرویز کی آمدورفت کے وقت بند کیے جانے لگے۔ 21 کروڑ سے زیادہ لوگوں کی سیکورٹی کے بجائے سارا زور ایک شخص کی سیکورٹی پر لگادیا گیا۔ رپورٹ میں سب واضح ہے کہ سیکورٹی موجود تھی۔ وارننگ بھی تھی کوئی جوابی کارروائی نہیں کی گئی۔ بڑا افسر بچ گیا چھوٹے عملے کو سزا ہوگئی۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا یہ جملہ بہت سنگین ہے کہ اپنا ہی خون غداری کرجائے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں۔ یہ اپنا خون اگر اے پی ایس کی سیکورٹی پر مامور عملہ تھا تو بھی تشویشناک بات ہے اور اگر یہ اعلیٰ افسران تھے تو اور بھی تشویش کا باعث ہے۔ ساتھ ہی چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ واقعہ کس کی وجہ سے ہوا یہ پتا چلنا چاہیے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کمیشن کس لیے بنایا گیا تھا۔ اگر چیف جسٹس سوال پوچھ رہے ہیں کہ اتنی بڑی سیکورٹی کیوں ہے تو ان کا سوال بجا ہے لیکن ان کی جانب سے اتنے عرصے بعد کمیشن رپورٹ سامنے آنے کے بعد یہ کہنا کہ واقعہ کس کی وجہ سے ہوا یہ پتا چلنا چاہیے تو سوال ضرور ہوگا کہ پھر کمیشن نے کیا کام کیا۔ اول تو اس سانحے کے بارے میں کمیشن رپورٹ آنے کے بعد بھی شبہات ہیں اور شہید بچوں کے والدین نے مطالبہ کیا کہ رپورٹ ہمیں فراہم کی جائے۔ مختلف لوگوں نے تو الزام ہی سیکورٹی اداروں کے سر ڈال دیا تھا۔ ایسے حالات میں ان بچوں کے والدین کو کھل کر مقدمہ لڑنے دیا جائے ان کا تحفظ کیا جائے، مقدمے کی کارروائی کھلی ہونی چاہیے۔ والدین کے موقف کو سامنے آنا چاہیے۔ لیکن یہ ہوا کیا ہے جس سانحے کے ذریعے 16 دسمبر 1971ء کے سانحہ سقوط ڈھاکا کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی، لوگوں کو ہر سال بچوں کی یاد منا کر بتایا گیا کہ پاکستانی قوم کی تاریخ میں یہی سب سے بڑا سانحہ تھا۔ اس سے خیالات اور شبہات بڑھنے لازمی تھے۔ 100 سے زائد بچوں کا قتل اپنی جگہ سنگین واقعہ ہے لیکن 93 ہزار فوجیوں کا ہتھیار ڈالنا الگ سنگین واقعہ ہے۔ جس کی پوری اسلامی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ پھر ہر سانحے کے بعد عوام ہی کومخمصے میں ڈالنا درست نہیں۔ چیف جسٹس کے سوالات اور ان کا حکم بجا ہے کہ حکومت کارروائی کرے ورنہ ہم کریں گے لیکن کیا عدلیہ کارروائی کرے گی۔ اگر کارروائی کے دوران سیکورٹی اداروں کے اہلکار اور بڑے ملوث پائے گئے تو عدلیہ بھی کوئی اور راستہ لے گی۔ اس سانحے کے علاوہ بھی بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے مقدمات میں عدلیہ خاموش رہ جاتی ہے یا دوسرے راستے سے نکل جاتی ہے۔ چیف جسٹس کا یہ سوال بجا ہے کہ اتنی بڑی سیکورٹی کیوں ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال اٹھتا ہے کہ پھر عدلیہ کے پاس کیوں جائیں جب وہ صرف کمنٹس دے کر کچھ نہ کرے۔ پھر اتنی بڑی عدلیہ کیوں۔ کراچی میں ہی 8 برس بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس میں بھی تو 264 کے بدلے صرف 2 چھوٹوں کو سزا ہوئی ہے۔ سارے بڑے بچ گئے۔ جس پر بغلیں بجائی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے پوچھیں کہ 8 برس میں کیا صرف یہی معلوم کرسکے؟ عوام اسی طرح آرمی پبلک اسکول سانحے کے حقائق بھی جاننا چاہتے ہیں۔ یہ کیسا نظام ہے عوام کو سیکورٹی بھی نہیں ملتی اور انصاف بھی نصیب نہیں۔ والدین کی خواہش کے مطابق انہیں جلد سے جلد رپورٹس فراہم کی جانی چاہئیں تا کہ انہیں انصاف مل سکے۔