امریکی جمہوریت پر صدر ٹرمپ کا حملہ

409

دنیا کی سب بڑی جمہوریت کے دعویدار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ’’ان کی شکست کی صورت میں پُر امن اقتدار کی منتقلی ناممکن ہے‘‘ اور کسی بھی صورت میں اقتدار جو بائیڈن کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ صدر امریکا کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مد ِ مقابل صدارتی امید وار جو بائیڈن نے انتخابی معرکہ جیت لیا تب بھی ان کا وائٹ ہاؤس میں داخلہ مشکل بنا دیں گے۔ نیویارک ٹائم کا کہنا ہے کہ:
Trump Won’t Commit to Peaceful Post-Election Transfer of Power
نیویارک ٹائمزنے رائٹر کے حوالے سے بتایا کہ ٹرمپ نے الیکشن کے بعد پُر امن اقتدار کی منتقلی سے یکسر انکا ر کردیا ہے۔
سی این این کا کہنا ہے کہ!
Donald Trump just told us our democracy is at Risk from him
یہ بات پاکستان کے بارے میں یا پاکستانی اخبارات نہیں لکھ رہے ہیں بلکہ امریکا کے اخبارات کہہ رہے ہیں کہ ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکا میں خطرے سے دوچار ہے‘‘۔ امریکی صدر نے امریکیوں کو بتا دیا کہ ’’امریکا کی جمہوریت کو تاریخ کے بد ترین خطرات کا سامنا ہے۔ امریکی جمہوریت کو بچانا ہے تو صر ف ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب کرانا ہوگا۔
بی بی سی نیوزکا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ!
US election: Trump won’t commit to peaceful transfer of power
امریکی انتخابات کے بعد ٹرمپ امریکا میں ’’پُر امن اقتدار کی منتقلی‘‘ نہیں ہو نے دیں گے۔
Trump’ comments send a signal to his supporters about how to react Biden prevails
اس کے بعد ’’سی این این‘‘ کا کہنا ہے امریکی صدر ٹرمپ اپنے حمایت کرنے والوں کو اشارہ دے رہے ہیں کہ جو بائیڈن کو اقتدار میں آنے سے ہر صورت روکنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے حمایتی کس طرح جو بائیڈن کو اقتدار میں آنے سے روک سکتے ہیں۔ یہ بات اب ساری دنیا کو معلوم ہے کہ ’’امریکا میں جمہوریت نہیں ہے بلکہ امرا کی حکومت ہے جس طرح ماضی میں فرانس اور برطانوی سلطنتوں میں ہوا کرتی تھی۔ باقی لوگ محض محکوم ہیں اگرچہ انہیں امریکا کا شہری کہا جاتا ہے۔ صرف 585 کھرب پتی امریکا کے اصل حکمران ہیں‘‘ جن میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔
ہم تو پہلے سے کہتے تھے کہ امریکا کی جمہوریت جھوٹ، فراڈ اور ظلم کے سوا کچھ نہیں اب یہ راز کھل کر سامنے آگیا ہے کہ کس طرح طاقتور ممالک اور بالخصوص امریکا ’’جمہوریت کے نام‘‘ کو کمزور ممالک میں انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کرتا ہے اور جو امریکا کی جمہوریت کو نہیں مانے ان ممالک کو تہہ تیغ کردیا، تباہ وبرباد کرکے کھنڈر بنادیا امریکا میں بھی جمہوریت اور غیرملکی مفادات کی سزا عام شہریوں کو ملتی ہے۔ امریکا کے اپنے سروے کے مطابق اس کے شہریوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں جان کا خطرہ رہتا ہے۔ امریکا کے عوام کو بھی جمہوریت چاہیے لیکن یہ سب کچھ نہ پہلے کبھی آسان تھا اور نہ آئندہ ہو گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کے انتخابات میں بھی یہ بات سامنے آگئی تھی کہ ان انتخابات میں کیا کچھ ہوا ہے لیکن اس کو کبھی یہ اور کبھی وہ کہہ کر چھپا دیا گیا۔
امر یکی جمہوریت کو اکثر غیرملکی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کو دیکھ لیجیے جہاں امریکا گزشتہ 100دنوں سے اس کام میں لگا ہوا ہے عرب اور شمالی افریقا کے ممالک کسی نہ کسی طرح اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ پورے امریکا میں کوویڈ – 19امریکیوں کی زندگیاں نگل رہا ہے امریکی صدر صرف یہی کہہ رہے ہیں یہ سب چین نے کیا ہے۔
’’بھارت کے سابق وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اندر کمار گجرال جس وقت وہ صرف رکنِ اسمبلی تھے کراچی میں معروف تاجر ایس ایم انعام کے گھر ایک ظہرانے میں میرے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ: ’’یہ امریکا جس نے جاپانیوں پر ایٹم بم برسایا، وہ ہمیں بتائے گا کہ ہم ایٹمی ٹیکنالوجی کو کس طر ح استعمال کریں گے‘‘۔
وینزویلا، عراق، لیبیا کو دیکھ لیجیے اور افغانستان تو پڑوس ہی میں ہے۔ دو دہائیاں ہونے کو آرہی ہیں اور جمہوریت اب تک افغانستان کے در وبام میں نہیں اتر سکی۔ ایک طرف مذاکرات او ر دوسری جانب ’’الجزیرہ‘‘ یہ خبر دے رہا ہے کہ:
Taliban Kills 28 Police officials as Doha Peace Talks continue
امریکا اتنا ہی جمہوریت نواز اور اس کا حامی ہوتا تو ’’فلسطین اور کشمیر‘‘ میں عوام کے جمہوری حقوق وعدہ کے مطابق انہیں مل چکے ہوتے؟ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو اپنی قراردادوں کے ذریعے جمہوری استصواب رائے کا حق دیا۔ یعنی وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے فیصلہ کریں گے کہ ان کا مستقبل کیا ہے، اقوام متحدہ کی نگرانی میں شفاف جمہوری عمل ہونا تھا لیکن سترسال سے زائد ہوئے، اقوام متحدہ، عالمی برادری اور امریکا کو جمہوریت اور مودی کی درندگی کی چیخیں مقبوضہ کشمیر کی وادیوں سے باہر سنائی ہی نہیں دے رہیں؟
فلسطین میں لہو کی ندیاں بہہ رہی ہے۔ کسی جمہوریت کی آنکھ نہیں کھل رہیں اور نہ ہی لب کشائی کی جرأت ہے۔ جمہوریت فلسطین میں آکر نہ جانے کیوں گونگی، بہری اور اندھی ہوجاتی ہے؟ جمہوریت واقعی امریکا کو عزیز ہوتی تو اسرائیل کی ناجائز حکومت اور بستیاں یوں دن رات وسیع نہ ہورہی ہوتیں؟ امریکی جمہوریت اندھے کے ریوڑیاں بانٹنے کی طرح یہاں بھی ہر روز اسرائیل کا رقبہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ اور آج بھی صدر ٹرمپ اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح کسی اسلامی ملک پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کو تسلیم کرنے والوں کی فہرست طویل سے طویل کر لی جائے اور اس کو اپنے انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اس سلسلے میں یہ بھی پتا چلا ہے امریکی آرمی چیف نے کہا ہے کہ اگر ان کی فوج کو انتخابات میں کردارادا کرنے کے لیے کہا گیا تو وہ استعفا د ے دیں گے۔
امریکا نے آئینی جمہوریہ کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز 1789ء میں جارج واشنگٹن کے منصبِ صدارت سنبھالنے کے ساتھ شروع کیا۔ امریکا ہی ایک ایسا ملک ہے جو اپنے قیام سے لے کر اب تک ایک ہی نظامِ حکومت کو کامیابی سے برقرار رکھے ہوئے ہے، اس اعتبار سے امریکی جمہوریت کی بہترین تصویر اس کے نظامِ حکومت کے مطالعے ہی سے پیش کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس نظام کے نقاب کے پیچھے کیا ہے اس کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں امریکا کی عمر محض 231 سال ہے لیکن نظامِ حکومت کے اعتبار سے یہ دنیا کی قدیم ترین ریاست ہے کیونکہ عصر حاضر میں یہ واحد ترقی یافتہ قوم ہے جو اپنے جنم کے روزِ اول سے لے کر آج تک ایک ہی نظامِ حکومت پر کاربند چلی آ رہی ہے۔ لیکن اب اس نظام کو امریکی صدر نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ نہ جانے کیوں یہ بھی تاریخ کا ایک کھلا سبق ہے ’’وہ ملک اور اقوام جن کو افغانستان سے شکست ہو ئی ان ممالک کا پورا نظام تباہی بربادی سے دو چار اور تاریخ کے صفحات سے ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے کیا امریکا بھی ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہے؟‘‘۔