پیپلز پارٹی کے زیر انتظام اے پی سی کا انعقاد اور اس میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو ٹف دینے کے لیے بنائے گئے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ یا پی ڈی ایم کا قیام پاکستان میں اتحادوں کی مروجہ سیاست کو مد نظر رکھتے ہوئے بظاہر تو کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے البتہ جن حالات اور مقاصد کے تحت یہ اتحاد قائم کیا گیا ہے وہ یقینا توجہ اور اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں نے پی ڈی ایم کے اس اجلاس میں جو لب ولہجہ اختیار کیا ہے اور اس کے خلاف حکومت اور آئی ایس پی آرکا جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ بھی یقینا قابل غور ہے۔ ماضی میں پاکستان کے سیاسی اتحادوں کی تفصیل میں جائے بغیر موجودہ اتحاد اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ اتحادکسی فوجی آمر کے بجائے ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف معرض وجود میں آیا ہے اور اس کی دلچسپی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس میں جماعت اسلامی کو چھوڑ کر اپوزیشن کی تمام جماعتیں شامل ہیں۔ زیر بحث اتحاد اور اے پی سی کے ویسے تو کئی دیگر پہلو بھی لائق توجہ ہیں لیکن کالم کے محدود حجم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہاں چند قابل توجہ امور ہی زیر بحث لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پہلی بات اس کانفرنس کا طے شدہ شیڈول کے تحت انعقاد ہے کیونکہ اب تک مختلف مواقع پر اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان خود کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب کرنے اورخود کو اس کی نظروں میں قابل اعتماد ٹھیرانے کے حوالے سے جو ریس لگی ہوئی تھی اس کی کچھ جھلک تو شیخ صاحب آشکارہ کرچکے ہیں جب کہ اس کی باقی تفصیل مولانا فضل الرحمن سے پوچھی جاسکتی ہے کیونکہ انہوں نے اے پی سی میں لاگ لپیٹ رکھے بغیر اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں کے خلاف جو لائن اختیار کی وہ ہر گز اختیار نہ کرتے۔ بعض دل جلوں کا کہنا ہے کہ مولانا صاحب اپوزیشن کو پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے پر جو زور دے رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ ان کا پارلیمنٹ سے باہر ہونا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ان کا 1973 کے آئین کے تناظر میں یقینا وہی موقف ہوتا جو انہوں نے 2007 میں مرحوم قاضی حسین احمد کے بار بار کے مطالبے اور ناراضی کے باوجود جنرل پرویز مشرف کے خلاف بطور احتجاج پارلیمنٹ سے ایم ایم اے کے استعفوں کے معاملے پر اپنا کر قاضی حسین احمد مرحوم کو اس حد تک دلبرداشتہ کر دیا تھا کہ وہ نہ صرف ایم ایم اے سے کنارہ کش ہو گئے تھے بلکہ انہوں نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ بھی کر دیا تھا۔
اے پی سی کی دوسری اہم بات اس سے میاں نوازشریف کا غیر متوقع خطاب تھا جبکہ اس حوالے سے یہ بات بھی توجہ کی حامل تھی کہ حکومت جو پہلے میاں نواز شریف کے خطاب کو نشر نہ ہونے دینے کے واضح موڈ میں نظر آرہی تھی اس نے اچانک میاں نواز شریف کی تقریر براہِ راست نشر کرنے کی اجازت دے کر بظاہر تو سیاسی بلوغت کا تاثر دیا ہے لیکن اس حوالے سے اصل حقائق کا سامنے آنا ابھی با قی ہیں۔ اے پی سی کا تیسرا اہم پہلو میاں نواز شریف کا اپنے خطاب میں موجودہ حکومت کو چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرنا تھا۔ سیاسی مبصرین کے زیر بحث اے پی سی کے متعلق جتنے بھی تجزیے سامنے آئے ہیں ان میں بحث کا بنیادی موضوع یہی نکتہ رہا ہے۔ دراصل اگر یہ بات لائق توجہ نہ ہوتی تو عسکری ترجمان کو اس حوالے سے ایک باقاعدہ پریس ریلیز جاری کرنے کی ہرگز ضرورت محسوس نہ ہوتی جبکہ اس کی اہمیت کا اندازہ میاں نوازشریف اور اے پی سی کا اعلامیہ سامنے آنے کے بعد عسکری قیادت کی اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان سے ایک ہفتہ قبل ہونے والی ملاقات کو اس موقع پر خبر کی صورت جاری کرنے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ میاں صاحب جن کو چند ماہ قبل مبینہ ڈیل کے نتیجے ہی میں بیرونِ ملک جانے دیا گیا ہے وہ آج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو لب ولہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں کیا اس طرز عمل کے ذریعے وہ ایک بار پھر پاکستانی سیاست کے زمینی حقائق سے چشم پوشی کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر بیرون ملک بیٹھ کر ان کے ہاتھ میں ایسی کون سی گیڈر سنگھی لگی ہے کہ وہ ریاست کے سب سے طاقتور اور منظم ادارے کو یوں چیلنج کررہے ہیں۔ کیا اتنا بڑا بول بولنے کے لیے جس تیاری اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ خود، ان کا خاندان اور ان کی پارٹی اس کے لیے تیار ہیں۔ میاں صاحب کے بعض مداح انہیں جس بھونڈے انداز میں امام خمینی اور نیلسن منڈیلا کے روپ میں پیش کررہے ہیں وہ اس طرزعمل کے ذریعے نہ صرف میاں صاحب اور ان کی پارٹی کو خودکشی پر مائل کررہے ہیں بلکہ یہ طرزعمل ریاست کی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کرنے کی مترادف ہے۔ میاں صاحب کسی سے بھی زیادہ اس حقیقت کو خودبخوبی جانتے ہیں کہ وہ نہ تو امام خمینی ہیں اورنہ ہی وہ نیلسن منڈیلا بننا پسند کریں گے۔ میاں صاحب سیاست میں یہ قد کاٹھ حاصل کرنے کا موقع ایک نہیں کئی مرتبہ گنواچکے ہیں لہٰذا ان کے ماضی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگرصرف ان کے حال پر ہی نظر ڈالی جائے تو اس حقیقت کو کسی کے لیے بھی سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے لہٰذا سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل جس سے22 کروڑ عوام کا کوئی لینا دینا نہیں ہے دراصل ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول کا ایک گورکھ دھندہ ہے اس لیے اسے زیادہ سنجیدہ لینے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔