عزت واحترام مگر کیسے

309

کون نہیں چاہتا کہ مسلح اداروں کا احترام کیا جائے،کون نہیں چاہتا کہ جنرلوں کی عزت اور توقیر ہو۔ انہیں دیکھتے ہی ہاتھ سلیوٹ کے لیے اٹھ جائیں۔ یہی معاملہ عدلیہ کے ساتھ بھی ہے سب چاہتے ہیںکہ معزز جج سامنے آئیں تو سب احترام سے سر جھکا کر کھڑے ہو جائیں۔ یہ عزت اور احترام معاشروں کا حسن ہے۔ جس نے اپنی ذات سے بلند ہوکر، مفادات سے بالاتر ہوکر، کرپشن اور بددیانتی سے دامن بچاتے ہوئے، اپنی حدود میں رہ کر ملک وقوم کی خدمت کی ہو ان کے لیے عزت واحترام کے جذبات خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں اس کے لیے قانون سازی اور سزائوں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ڈنڈے کے زور پر کی جانے والی عزت، عزت نہیں ہوتی۔ احترام دل کی گہرائیوں سے جنم لیتا ہے ڈنڈے سے نہیں۔ یہ سب کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت مسلح افواج یا ان کے کسی رکن کا جان بوجھ کر تمسخر اڑانا وقار کو گزند پہنچانا یا بدنام کرنا جرم قرار پائے گا اور ایسا کرنے والے کو دو برس تک قید اور پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔
ریاستی طاقت کا جائزاستعمال، اداروں کی حدود کا تعین اور طے شدہ اصولوں سے عدم تجاوز ہی اداروں اور شخصیات کو قابل عزت بناتا ہے۔ جو افراد اپنی حیثیت اور عہدے کو ناجائز دبائو اور کمزور اداروں اور حلقوں پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال نہیں کرتے، وہ سیاست کے کھیل میں فریق نہیں بنتے تب عزت واحترام کے لیے سخت قوانین کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ جو قوانین موجود ہوں انہیں بھی استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ عزت اور احترام عمل اور کردار سے پیدا ہوتا ہے۔ کسی ایسے جنرل کی عزت کیسے ممکن ہے جو منتخب سیاسی حکومت کو چلنے نہ دیتا ہو، عدالتی فیصلے جس کے اشارہ ابرو سے متعین ہوتے ہوں، جو حکومتیں سلیکٹ کرتا ہو، جس کا ایک ساتھی جنرل کرپشن کا استعارہ بن گیا ہو اور اس کے خلاف کوئی کارروائی ممکن نہ ہو تب وہ جنرل اور ادارہ ہی قصور وار نہیں ٹھیرتا پورا حکومتی نظام اور ریاست زوال کی طرف سفر کرتی نظر آتی ہے۔
موجودہ غیر اسلامی دنیا میں ریاستی طاقت کہیں بھی عوام کی دوست اور ہمدرد نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ریاستی طاقت پر چھوٹے طاقتور اقلیتی گروہ مسلط ہیں جنہیں مقتدر طبقے کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں جاگیردار، وڈیرے، بیوروکریٹس، تاجر، صنعت کار، اسمگلر، کالا دھندا کرنے والے، قبضہ گروپ اور افواج پاکستان ان مقتدر اداروں میں شامل ہیں۔ عدلیہ ان طبقات کے جبر اور زیادتیوں سے عوام کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ان گروپوں کے خلاف جدوجہد میں عدلیہ عوام کی پشت بان طاقت ہوتی ہے۔ پاکستان میں چونکہ عدلیہ یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے دیکھ لیجیے کہ آج جج صاحبان عزت اور توقیر سے محروم ہیں۔ آج کسی جج کو دیکھ کر لوگ جسٹس کارنیلس کی طرح احتراماً کھڑے نہیں ہوتے۔ پاکستان میںعوام کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جن طبقات کے خلاف جدوجہد کرنی پڑرہی ہے بدقسمتی سے اس میں فوج بھی شامل ہے۔
نواز شریف کی حالیہ تقریر کو جو پزیرائی ملی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ نکتہ تھا کہ ملک میں قومی اتفاق رائے کو افراتفری سے ہمکنار کرنے اور سیاسی عمل کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی ذمے دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ پاکستان میں اگر آج سیاسی شفافیت نہیں ہے تو اس کی ذمے دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس تقریر نے عمران خان اور ان کی حکومت کو ثانوی چیز بنادیا ہے ان کی اتحادی اسٹیبلشمنٹ کو اصل وجہِ فساد۔ بدقسمتی سے آج عوام بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔ جب الطاف حسین فوج کے خلاف تقریر کرتے تھے تو عوام میں سخت نا پسندیدگی کے جذبات جنم لیتے تھے۔ خود ان کی پارٹی کے اندر بھی اس عمل کو برا سمجھا جاتا تھا لیکن آج نواز شریف کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ تقریر کو عوام میں سراہا جارہا ہے۔ یہ تاثر گہرا ہوتا جارہا ہے کہ نواز شریف کی منتخب حکومت کو غلط طریقوں سے ہٹایا گیا ہے۔ کس نے ہٹایا ہے اس کے بارے میں بھی دورائے نہیں پائی جاتیں۔ جمہوری حکومتوں کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں وضع کریں اور پھر ان پر عمل بھی کریں۔ محترمہ بے نظیر سے لے کر آج تک سول حکمرانوں کو سیکورٹی رسک سمجھنا اور ان کا دائرہ کار چند شعبوں تک محدود رکھنا اب تک اس کے کوئی بہتر نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے اتحاد سے اب تک کسی کے لیے بھی کچھ اچھا برآمد نہیں ہوا۔ گزشتہ نومبر مولانا فضل الرحمن نے اس اتحاد کے خلاف جراحت کا آغاز کیا تھا لیکن شہباز شریف کے مفاہمت کے بیانیے نے دھرنے کو شدید نقصان پہنچایا۔ مسلم لیگ ن کے اندر کے دو بیانیے چل رہے تھے۔ ایک شہباز شریف کا بیانیہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے صلح جوئی کا رویہ اختیار کیا جائے نواز شریف اس بیانیے کے حامی نہیں تھے کیوں کہ وہ تین مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں نکالے جا چکے ہیں۔ بھٹو سے لے کر شہباز شریف تک ہماری اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ یہی ہے کہ وہ شکنجے میں آئے ہوئے سیاست دانوں سے مفاہمت نہیں کرتی لہٰذا شہباز شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مولانا فضل الرحمن مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے جس ٹکرائو اور تصادم کی پالیسی پر چل رہے ہیں اس میں اہل فکر کے لیے بہت سامان ہے۔ کیونکہ یہ طرز سیاست مولانا کا وتیرہ نہیں ہے لیکن ان کے پاس بھی کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا ہے سوائے تصادم کے۔ اب مولانا کی جدوجہد کو نواز شریف کے بیانیے کی قوت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ سیاست دانوں کی جو نئی نسل سامنے آرہی ہے اس میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
عمران خان نے ابتداً نواز شریف کی تقریر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی تھی لیکن جب انہیں ذرائع سے پتا چلا کہ نواز شریف کی تقریر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے انہوں نے اسے نشر کرنے کی اجازت دے دی۔ وہ بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کی راہ میں حائل نہیں ہوئے محض اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف مخالفت میں شدت آئے، اسٹیبلشمنٹ فوری ردعمل دکھاتے ہوئے مسلم لیگ ن کے خلاف مزید کارروائی کرے جو ان کے اقتدار کی مدت کو سوٹ کرتی ہے۔ انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ نواز شریف کی تقریر کو اس قدر پزیرائی ملے گی اور مسلم لیگ ن کی مردہ رگوں میں نئی جان دوڑ جائے گی۔ ماضی میں عمران خان خود بھی بھارت میں بیٹھ کر اسٹیبلشمنٹ مخالف باتیں بڑی گھن گرج کے ساتھ کرتے رہے ہیں اس کے باوجود ضرورت ایجاد کی ماں کے تحت آج وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ ہیں۔ تحریک انصاف کو سینیٹ میں بھی اکثریت دلوانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہ آئین میں ترمیم کرکے ملک پر یک جماعتی نظام مسلط کرسکے۔ اگر ایسا ہوگیا تو اپوزیشن کے لیے کوئی دعا کرنے والا بھی باقی نہیں رہے گا۔ اپوزیشن کو اس کا پورا ادراک ہے اس کی مزاحمت کی شدت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ آئینی اور قانونی راستے سے اکثریت کے حصول کی اس خواہش کو روکنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں چھوڑا گیا۔
بلوچستان، خیبر پختون خوا، فاٹا، سندھ اور اب پنجاب میں بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات وسعت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس کے نتیجے میں تشکیل پانے والے پی ڈی ایم (پاکستان ڈیمو کریٹک مومنٹ) کی تحریک چلنے کے نتیجے میں یہ جذبات سڑکوں پر ننگے ناچیں گے، اسٹیبلشمنٹ اور عوامی جذبات دو مختلف سمتوں میں نظر آئیں گے۔ کیا یہ اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے مفاد میں کوئی بہتر صورتحال ہے۔ ایسے میں جب کہ بھارت موقع کی تلاش میں ہے۔ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشمکش جاری ہے۔ خون آشام عفریت ہماری رگ جاں پر قبضہ کرچکا ہے۔ ایسے میں سب اپنے مسلح اداروں کے ساتھ مل کر کھڑا ہونا چاہتے ہیں، ان کی عزت وتوقیر کرنا چاہتے ہیں مگر کیسے؟