عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ قاضی نے کہا ہے کہ یکطرفہ کہانیاں پیش کرنا اور میڈیا کو قابو کرنا درست نہیں۔ حلف کی پاسداری کی جاتی تو پاکستان کے حالات بدل چکے ہوتے۔ اس ملک میں صحافت اب بھی آزاد نہیں ہے۔ جسٹس فائز نے متنبہ کیا کہ شہریوں نے آزادی اظہار کے حق پر ہار مان لی تو دیگر حقوق بھی چھین لیے جائیں گے۔ انہوں نے اسلام آباد میں صحافیوں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آگاہی رکھنے والے شہری اور صحافی حکومت کی غلطیوں کی بہترین نشاندہی اور احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جسٹس فائز نے چند جملوں میں پاکستان کی بہت ساری گتھیاں سلجھا دیں۔ ان کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ جب لوگ پریس کی آزادی کے لیے جنگ لڑتے ہیں تو دراصل وہ اپنے حقوق کا تحفظ کررہے ہوتے ہیں۔ ناانصافی اور کرپشن کو سامنے لانا ضروری ہے تا کہ اختیار رکھنے والے افراد کو اندازہ ہوجائے کہ انہیں عوامی اسکروٹنی کا سامنا ہے تو وہ اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کم کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کسی قسم کا حلف اُٹھانے کے قانونی طور پر پابند نہیں جب کہ جج، مسلح افواج کے عہدیداروں اور قانون سازوں سمیت سرکاری ملازمین کو حلف اُٹھانا پڑتا ہے۔ یہ صحافیوں کی ساکھ کا ثبوت ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ حلف کی پاسداری مضبوطی سے کی جائے اور دبائو سے ہٹ کر کھڑے رہیں۔ اور پھر انہوں نے کہا کہ حلف کی پاسداری کی جاتی تو پاکستان کے حالات بدل چکے ہوتے۔ انہوں نے خود ہی نشاندہی کردی کہ حلف کی پاسداری وہ لوگ نہیں کرتے جو حلف اُٹھاتے ہیں، صحافی تو حلف نہیں اُٹھاتے لیکن قلم کی حرمت کا پاس کرتے ہیں۔ جناب جسٹس آج کل خود بھی یکطرفہ کہانیوں کی زد میں ہیں، انہیں اچھی طرح پتا ہوگا کہ یکطرفہ کہانیاں چلانے والے بھی صحافی ہوتے ہیں، اسی لیے انہوں نے کہا کہ صحافت اب بھی آزاد نہیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ صحافیوں کے ذریعے عدلیہ کو حقوق دلوانے کی کوشش بھی کررہے تھے۔ جناب جسٹس اس حقیقت کو تو پاچکے کہ حلف کی پاسداری نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے حالات خراب ہوتے ہیں، وہ یقینا یہ بھی جانتے ہوں گے کہ حلف کی پاسداری کون کون کہاں کہاں نہیں کرتا۔ جب جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف وغیرہ نے حلف کی پاسداری نہیں کی تو ملک کا بیڑہ غرق ہوگیا اور جب جب عدلیہ نے حلف کی پاسداری نہیں کی تو ملک کا بیڑہ غرق ہوا۔ سرکاری ملازمین اور ارکان پارلیمنٹ کو تو عدلیہ سیدھا کرسکتی ہے۔ ویسے افواج پاکستان، پولیس یا خفیہ اداروں کے افسران کو کنٹرول کرنا بھی عدلیہ ہی کی ذمے داری ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر عدلیہ حلف کی پاسداری کرتی تو پاکستان کے حالات بدل چکے ہوتے۔ اب بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے۔ وہ آزادیٔ اظہار کے حق کے لیے عوام اور صحافیوں کو جنگ لڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں، وہ بجا ہے لیکن یہ کہنا کہ اگر عوام نے آزادیٔ اظہار کے حق پر ہار مان لی تو دیگر حقوق سے بھی محروم ہوجائیں گے غلط ہے۔ جناب آپ قاضی ہیں اور ایسے منصب پر فائز ہیں جس کا تقاضا ہی لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ پھر حقوق کی جنگ لڑنا شہریوں اور صحافیوں کی ذمے داری کیونکر ہوگئی۔ جسٹس صاحب خوب جانتے ہیں کہ یکطرفہ خبروں کا مقصد کسی کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ خبریں کہاں سے چلائی جاتی ہیں۔ صرف منفی خبریں یکطرفہ نہیں چلائی جاتی ہیں بلکہ کسی کی شخصیت سازی، کسی ادارے کو مقدس ثابت کرنے کے لیے بھی یکطرفہ خبریں چلائی جاتی ہیں۔ اور ذرا سی نشاندہی پر ایسا کرنے والے کا نام و نشان مٹا دیاجاتا ہے، لاپتا کردیا جاتا ہے اور عدلیہ… جس نے انصاف کرنے کا حلف اُٹھایا ہوتا ہے وہ کچھ نہیں کرپاتی۔ لاپتا لوگوں کا مقدمہ چلے جارہا ہے عدلیہ کی وجہ سے کوئی واپس نہیں آتا بلکہ لاپتا کرنے والے خود ہی اپنے مطلب کی معلومات حاصل کرنے کے بعد لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں یا جھوٹا مقدمہ بنادیتے ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں چیف جسٹس نے بھی شکوہ کیا ہے کہ جج دبائو سے آزاد ہو کر کام کریں۔ بیرونی دبائو کی وجہ سے کام نہیں ہوتا۔ تو پھر کیا پاکستان میں خرابیوں کی اصلاح صرف صحافیوں اور باشعور شہریوں کی ذمے داری ہے۔ سرکاری ملازم حلف کی خلاف ورزی کرکے پیسہ بناتا ہے، ججوں پر بھی یہی الزام ہے لیکن مسلح افواج کے اعلیٰ افسران حلف کی خلاف ورزی کرکے ملک کی سیاست میں دخیل ہوجاتے ہیں اور پورے ملک کا نظام تلپٹ ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی اس نظام کو درست کرسکتا ہے تو وہ عدلیہ ہے۔ عدلیہ اگر اپنے حلف کی پاسداری کرے تو دوسروں کو بھی اپنے اپنے حلف کی پاسداری پر مجبور کرسکتی ہے۔