قوم پرستی

214

کہتے ہیں تاریخ کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ قومیں تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتیں یہ بات بڑی حد تک درست ہے مگر تاریخ ایسا سچ ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ افغانستان نے اقوام عالم کو جو سبق دیا تھا۔ اس سے روس اور امریکا نے کوئی سبق نہیں سیکھا مگر جب تاریخ سر چڑھ کر بولنے لگی تو انہیں احساس ہوا کہ تاریخ کو جھٹلانا اپنی ذات کی تکذیب ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سماجی شخصیت متنازع نہ ہو تو روحانی شخصیت بن جاتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان بھی ایک متنازع شخصیت ہیں۔ ان کی دیانت داری کی تعریف و توصیف کرنے والوں کی کمی نہیں مگر ان سے اختلاف رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ عمران خان کی وطن پرستی دیانتداری سے انکار کی بہت سی وجوہ ہیں۔ عمران خان کی شخصیت سے دلی لگائو رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں۔ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کے لیے امریکا اور لندن میں کوئی جائداد نہیں بنائی۔ بالکل درست کہتے ہیں مگر انہوں نے بنی گالا میں جو جائداد بنائی ہے اس کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟ عمران خان نے زمینی حقائق سے کوئی سبق سیکھا نہ تاریخ سے کوئی سبق سیکھا۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ کہ وہ زمینی حقائق سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں نہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ بابائے قوم محمد علی جناح ؒ کی بیٹی واڈیا ان سے کیوں بدظن تھی۔
مشاہدہ اور مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ والدین کے اختلاف اولاد پر بہت ہی ناخوشگوار اثرات مرتب کرتے ہیں۔ قائد اعظم نے ایک پارسی لڑکی کو مسلمان کر کے شادی کی تھی۔ جس کے بطن سے واڈیا نے جنم لیا تھا۔ واڈیا بہت چھوٹی تھی تو اس کی والدہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ جہاں واڈیا نے پرورش پائی اور والدین کے اختلاف کے بارے میں سن کر والدہ کی مظلومیت کا گہرا اثر لیا۔ عمران خان نے جمائما خان سے شادی کی تھی جس سے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ مگر یہاں بھی کچھ ایسے اختلافات پیدا ہوئے جو علٰیحدگی کی وجہ بنے۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے بیٹے پاکستان اور اہل پاکستان سے محبت کا مظہر نہیں بن سکتے۔ حالاں کہ جمائما خان اور ان کے دونوں بیٹے پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے جس محبت اور عقیدت کا مظہر بنتے وہ وطن عزیز کے لیے باعث فخر ہوتا۔ مگر ایسا ممکن نہیں کہ ماں کو ذہنی اذیت کا سبب بنانے والا کبھی آئیڈیل نہیں بن سکتا۔ علاوہ ازیں جمائما خان اور اس کے دونوں بیٹے خود کو مسلمان کہلانا کبھی پسند نہیں کریں گے۔ خدا کرے ہمارا اندازہ غلط ثابت ہو اور عمران خان کے دونوں بیٹے مسلمان کہلانا قابل فخر سمجھیں۔
ہمارے ایک دوست نے بتایا اس کی عزیزہ رامپور انڈیا اپنے والدین سے ملنے گئی سفر کے دوران بچے کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ وہاں کے ڈاکٹر مراری لال کو دکھایا گیا باتوں ہی باتوں میں ڈاکٹر صاحب کو علم ہوا کہ بچے کی والدہ نے پاکستان کراچی میں شادی کی ہے۔ تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ تم نے ہماری آبادی میں کمی کر دی۔ پاکستانی مرد سے شادی کی اچھا کیا۔ مگر پاکستان کی شہریت اختیار کر کے بھارت سے زیادتی کی ہے۔ بچے کی والدہ نے کہا پھر کیا کرتی۔ کرنا کیا تھا اپنے شوہر کو بھارت کی شہریت دلا دیتی جس طرح تمہارے شوہر نے تمہیں پاکستان کی شہریت دلائی ہے۔ بھارتی ڈاکٹر کو اپنے ایک شہری کا پاکستان کی شہریت اختیار کرنا پسند نہ آیا۔ اس معاملے میں ہمارا بھی یہی کہنا ہے کہ جمائما خان اور ان کے دونوں بیٹوں کا پاکستانی شہریت سے دستبردار ہونا ہمیں بھی پسند نہ آیا۔
بھارتی ڈاکٹر کی مہمان نوازی بڑی خوش آئند تھی۔ بچے کا معائنہ کرنے کے بعد اس نے نسخہ تجویز کیا اور کہا کہ اسٹور سے دوا لے لو۔ اسٹور سے دوا لی پیسے دینے چاہے تو کہا کہ پیسے ڈاکٹر صاحب کے کھاتے سے لے لیے جائیں گے آپ جائیں۔ ڈاکٹر مراری لال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غریبوں سے پیسے نہیں لیتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک نظام بنایا ہوا تھا۔ وہ نسخے پر ABCلکھ دیا کرتے تھے اور اسٹور کا ملازم اس کے مطابق پیسے لیا کرتا تھا۔ کراچی میں بھی ایک حکیم صاحب ہیں جو اپنے نسخے پر ABC لکھتے ہیں ان کا مطب عائشہ منزل پر واقع تھا۔ یہ پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے۔ اب معلوم نہیں کہ حکیم صاحب کے جانشین مریضوں سے کیا سلوک کرتے ہیں۔