صاحب جدید دور کو دیکھنے کا ایک زاویہ بھی ہے کہ آپ صرف یہ دیکھیں کہ سچ اور جھوٹ کس طرح اپنے پیرہن بدلتے چلے جا رہے ہیں۔ کیسے ایک دوسرے میں گھلتے ملتے اور یک جان دو قالب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور سچ اور جھوٹ کے میل ملاپ سے کیا کیا نئی نئی چیزیں وجود میں آ رہی ہیں۔ مثلاً چلیے آج کل کی مقبول ترین اصطلاح بیانیے ہی کو دیکھیے۔ اور تھوڑا سا غور کیجیے کہ یہ بیانیہ دراصل کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ کسی سچ کا نام ہے؟ جی نہیں ایسا نہیں ہے۔ تو کیا یہ کسی جھوٹ کو کہتے ہیں؟ جی نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔۔۔ تو پھر اگر نہ سچ ہے نہ جھوٹ ہے تو یہ ہے کیا بلا؟؟ تو اس سوال کا جواب یہی دیا جا سکتاہے کہ بھئی سچ ہے نہ جھوٹ۔ یہ بس بیانیہ ہے۔ تو آپ نے دیکھا کہ سچ اور جھوٹ کے بین بین ان دنوں دنیا میں اور بھی چیزیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک یہ بیانیہ بھی ہے۔
تو آئیے آج ذرا بیانیہ کا بیانیہ لکھتے ہیں۔ بہت آسان اور قدرے پروفیشنل لفظوں میں اگر ہم آپ کو بتائیں کہ بیانیہ کیا ہے تو صاحب بات یہ ہے کہ بیانیہ اس بات سے تو بحث ہی نہیں کرتا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ بیانیے کا تعلق صرف اس بات سے ہے کہ بات بتانی کس طرح ہے خواہ وہ سچ ہو یا جھوٹ۔ یعنی یہ صرف بات بتانے کا آرٹ ہے۔ آپ سچ بولنا چاہتے ہوں تب بھی اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ سچ بولنا کیسے ہے۔ اور اگر آپ جھوٹ بولنا چاہتے ہیں تب تو یہ سوچنا ہی پڑے گا کہ بھئی بولنا کیسے ہے۔ بولنا کیسے ہے مطلب۔ بات شروع کیسے کرنی ہے آگے کیسے بڑھانی ہے۔ کن واقعات کو زیادہ ہائی لائٹ کرنا ہے کن باتوں کو کم کرنا ہے۔۔۔ کن کو یکسر نظر انداز کر دینا ہے۔ کس چیز پر زیادہ فوکس کرنا ہے اور بات ختم کرتے وقت کیا انداز اختیار کرنا ہے۔
یہ سب بیانیے کے چند اجزاء ہیں اور ان اجزا کو دیکھتے ہوئے آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک ہی واقعے کے کئی بیانیے ہو سکتے ہیں اور ہم نے دیکھا ہی ہے کہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ آپ جانیے۔۔ یہ اصل واقعات کہانیوں کی طرح سادہ تو ہوتے نہیں۔ خاصے پیچیدہ ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے واقعات چھوٹے چھوٹے متعدد واقعات سے مل کر بنتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ظہور پزیر ہوتے ہیں، ان کی بعض اہم ترین جزیات کبھی سامنے نہیں آتیں۔ تو پھر ظاہر ہے یہ آپ کی مرضی پر منحصر رہ جاتا ہے کہ بعد میں اس کہانی کو کیسے سنائیں۔ کس کو ہیرو بنائیں کس کو ولن۔ وغیرہ وغیرہ… مثلاً نواز شریف صاحب کی لندن روانگی کو ہی لے لیجیے۔ آپ اس کہانی کو جتنے چاہیں اینگل دے سکتے ہیں کیونکہ اس کی بے شمار وجوہات ہیں۔ اس کے کئی پس منظر ہیں۔ کچھ کردار ظاہر ہیں، کچھ مخفی ہیں، کچھ کرداروں کا پتا ہے، کچھ کا علم نہیں ہے۔ کچھ کا علم ہو ہی نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر اگر آپ کو یہ کہانی سنانی ہے تو یہ کہانی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ آپ اس کہانی کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں، ساری معلومات کو سامنے رکھیے۔ پھر اپنے مفادات اور تعصبات کی عینک لگائیے۔ اس کے بعد کہانی کے جس پہلو کو چاہے نمایاں کریں جس کو چاہیں چھپائیں، جس کو چاہے مجرم قرار دیں۔۔۔ شواہد و قرائن دلائل ڈیٹا سب آپ کو فراہم ہو جائے گا۔۔۔ اور آپ اچھے کہانی کار ہوئے تو لوگ آپ کی بات کو خرید لیں گے یعنی آپ کی دلیل کو مان لیں گے۔۔۔ اگر خوش قسمتی سے آپ کے دلائل ان کے تعصبات سے ملتے جلتے ہوئے تو ظاہر ہے وہ بہت آسانی سے آپ کی بات مان لیں گے ورنہ شاید ماننے میں کچھ مشکل پیش آئے۔ بس صاحب۔۔ یہ ہے بیانیہ جس کی آج کل سب لوگ تکرار کر رہے ہیں لیکن تکرار میں اس بنیادی سچائی کو فراموش کیے چلے جارہے ہیں کہ بیانیہ سچائی سے بہت دور کی وادی میں پرورش پانے والا پودا ہے۔ جب اور جس لمحے آپ بیانیے کی بات کرنا شروع کرتے ہیں، اسی لمحے آپ یہ فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں کہ اپنے نقطہ نظر کی ترویج کے آپ کے لیے سچ کی ترویج سے زیادہ اہم ہے۔
بات کو زیادہ واضح کرنا ہو یہاں ہم مغرب کے ایک دانشور کا قول نقل کردیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ بیانیہ وہ چیز ہے کہ جب آپ بیانیے کو تشکیل دینے بیٹھتے ہیں تو آپ کا انداز کہانی کار کا ہوتا ہے لیکن جب آپ بیانیے کی کہانی سنانا شروع کرتے ہیں تو آپ کا انداز حقیقت نگار کا ہوتا ہے۔ یعنی وہ واقعہ جس کو آپ نے ایک کہانی کی طرح لکھا اور سوچا۔۔۔ اسی کو آپ نے سامنے والے کے ذہن و دل میں حقیقت بنا کر داخل کر دیا اور اگر سامنے والے کی قسمت خراب ہوئی تو وہ اسی سچ جھوٹ کے ملغوبے کو حقیقت سمجھ کر سدا زندگی گزارتا رہتا ہے۔ قسمت اچھی ہو تو اس بیانیے کی گرفت سے نکل جاتا ہے اور پھر کوئی دوسرا بیانیہ اس کے گلے پڑ جاتا ہے… ظاہر ہے اس زمانے میں آسانی سے نہ کھجور میسر ہے نہ آسمان۔ اس لیے لوگ ایک بیانیے سے گر کے دوسرے بیانیے میں اٹکتے رہتے ہیں۔