آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو کاراباخ کا حل طلب تنازع دور رس نتائج کے ساتھ علاقائی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ رہا ہے لیکن اب اس حل طلب تنازعے نے مذاکرات کے بجائے جنگ کی صورتحال اختیار کر لی ہے جس سے بڑی تباہی کے خدشات ہیں۔ آرمینیا کی جانب سے اس علاقے میں گزشتہ 30 سال اشتعال انگیز کارروائی کا سلسلہ سے جاری ہے۔ مذاکرات کے بجائے جنگ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ناگورنو۔ کاراباخ تنازعے کی غرض سے جاری مذاکراتی عمل کو روکنے اور بین الاقوامی برادری کی توجہ ہٹانے کی کوششوں کا مظہر ہے۔ آذربائیجان کے ضلع توزو پر آرمینیائی فوج نے رواں سال جولائی میں بھی حملہ کیا تھا جس کی پاکستان نے شدید مذمت کی تھی جس کے نتیجے میں متعدد شہری ہلاک ہوئے۔ پاکستان آرمینیا کو تسلیم نہیں کرتا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے پاکستان اس کے مدِ مقابل آذربائیجان کو تسلیم کرتا ہے پاکستان کی جانب سے آرمینیا کو تسلیم نہ کیے جانے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ترکی کی حکومت بھی آرمینیا کو تسلیم نہیں کرتی، اس سلسلے میں ترکی کا کہنا ہے کہ آرمینیا ایک طویل عرصے خلافت ِ عثمانیہ میں رہا ہے اور بعد میں الگ ہوگیا۔
ناگورنو کاراباخ تنازعے پر اپنے اصولی موقف پر قائم ہے اور جمہوریہ آذربائیجان کی خودمختاری اور علاقائی سلامتی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔ واضح رہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا دونوں سابقہ سویت یونین کی ریاستیں تھیں۔ آذربائیجان میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ اور یہ تیل و گیس سے مالا مال ملک ہے آذربائیجان اپنی دفاعی ضروریات پاکستان سے بھی پوری کرتا ہے۔ آذربائیجان میں ’’آذر‘‘ بولی اور سمجھی جاتی اور یہ بھی ترکی زبان کا حصہ ہے۔ سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد گزشتہ 30 سال سے ناگورنو کاراباخ کے علاقے پر دونوں ممالک میں تنازع پایا جاتا اور دونوں ملکوں کے درمیان اس معاملے پر 90 کی دہائی میں جنگ بھی ہوچکی ہے۔ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان سرحدی علاقوں میں جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن اب جھڑپیں مکمل جنگ کی صورت میں کیسے تبدیل ہوگئیں اس کا جواب یہ ہے کہ ’’بحیرہ کیسپین یا بحیرہ خزر‘‘ میں تیل اور گیس کے بہت بڑے ذخائر ہیں اور ترکی یہاں سے اپنی ضرورت اور یورپی یونین کو گیس فراہم کرنے کے لیے آذربائیجان سے اربوں ڈالرز کی پائپ لائن کی تیاری کا کام مکمل کر چکا ہے اس سلسلے میں اخبار بلوم برگ کا کہنا ہے کہ:
Azerbaijan Armenia Conflict Yet to Spook Energy Markets
اس مضمون کی تفصیل میں بلوم برگ لکھتا ہے کہ:
BTC pipeline from Azerbaijan run within 10miles of Armenia
ترکی گیس پائپ لائن کی مدد سے یورپ کو گیس سپلائی شروع ہونے والی تھی۔ ترکی کی یہ گیس پائپ لائن آرمینیا سے 10میل کے فاصلے سے گزر رہی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ:
Gas flows to European Union are start soon
گیس پائپ لائن یورپی یونین اور ترکی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے مکمل کی جا چکی ہے اور جلد گیس کی فراہمی شروع ہو جائے گی یہی بات روس، امریکا اور بھارت کو پسند نہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس وقت ترکی اپنی تیل اور گیس کی ضروریا ت کو پورا کرنے کے لیے 98فی صد درآمد کرتا ہے اور روس سے گیس کی بڑی مقدار ترکی درآمد کرتا ہے۔ روسی گیس نہ صرف ترکی کو فراہم کی جاتی ہے بلکہ ترکی سے یورپ کو بھی پہنچائی جاتی ہے۔ ترکی کی گیس پائپ لائن سے سب سے زیادہ نقصان روس کو ہوگا جس کی گیس سپلائی نہ صرف ترکی کے لیے بند ہو جائے گی بلکہ یورپ بھی روس کے بجائے اب ترکی سے گیس کی خریداری کرے گا۔ ’’آذربائیجان‘‘ کے حوالے ایک خطرناک دھمکی سامنے آئی جس میں آذربائیجان حکومت کا Radio Free Europe سے کہنا ہے کہ:
Idle Threat? Azerbaijan’s Hint At Missile Strike On Armenian Nuclear Plant
اس دھمکی کے بعد روس کے صدر پیوٹن کا بیان آر ٹی نیوز سے اس طرح سامنے آیا ہے کہ:
Russia’s Putin tell Armenian PM Pashinyan that all Military action in disputed Nagorno- Karabakh region should be halted
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ: روسی جنگی ائربیس ہی سے آذربائیجان پر حملہ کس کی اجازت سے کیا جارہا ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا کی سرحدوں پر جنگ کی صورتحال پر عالمی برادری کی جانب سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے جرمن وزیر خارجہ، یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم OSCE کے چیئرمین نے ناگورنو کاراباخ کی کشیدہ صورتحال کے بارے میں کہا ہے کہ اس علاقے میں فوجی جھڑپوں اور جنگ کی سی صورتحال گہری تشویش کا باعث ہے۔ اس سلسلے میں عالمی برادری انسانی جانوں کا ضیاع جس میں فوجی اور شہری دونوں شامل ہیں کو نہایت افسوناک امر قرار دیا ہے۔ یورپی کونسل کے سیکرٹری جنرل نے فریقین سے سویلین کی ہلاکتوں کو روکنے اور جھڑپوں کو مزید پھیلنے اور خون خرابے کو روکنے کی اپیل کی ہے۔ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان واقع متنازع علاقے ناگورنو کاراباخ میں 26ستمبر 2020 کو ہونے والی جنگ اور شدت کی جھڑپیں کئی برسوں کے بعد دیکھنے میں آئی ہیں۔ اس متنازع علاقے میں 1994ء کی جنگ کے خاتمے کے بعد سے آرمینی علٰیحدگی پسندوں کا قبضہ ہے جبکہ یہ علاقہ آذربائیجان کی سرزمین کے اندر واقع ہے۔ لیکن یہ سارے ممالک امریکا اور روس کی رضا مندی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ اس سلسلے میں daily sabah نے ترکی کے صدر طیب اردوان کے حوالے سے خبر لگائی ہے کہ:
Azerbaijan takes matters into own hands following Armenian attacks, global silence, Erdogan says.
ترکی کے ’’صدر اردوان‘‘ کا کہنا ہے عالمی برادری برسوں سے اس بحران کو دیکھ رہی ہے لیکن خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہم نے پہلے یہ ذکر کر دیا ہے کہ اس کی ایک وجہ ترکی کی گیس پائپ لائن ہے۔ لیکن دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ چین کے ’’سی پیک‘‘ بیلٹ اینڈ روڈ کا راستہ براہِ راست ایران سے یورپ کی طرف جاتا ہے۔ ایران کے سی پیک میں شامل ہونے سے قبل بھارت چاہ بہار اور بندر عباس سے ایک راستہ سی پیک کے متوازی نکال رہا تھا جس کو انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈورکا نام دیا گیا تھا اس روڈ کو بمبئی سے چاہ بہار۔ بندر عباس اور آذربائیجان اور آرمینیا کی سرحدوں سے ہوتا ہوا سینٹ پیٹرز برگ سے نکل کر یورپ کی جانب نکل جانا تھا لیکن ایران کی ’’سی پیک‘‘ میں شمولیت سے بھارت کا سی پیک کو تباہ کرنے اور انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔ یہ ساری صورتحال نہ صرف بھارت کے لیے بلکہ یہ حیران کن حالات امریکا کے لیے قابل قبول نہیں اسی آرمینیا سے کہا گیا کہ اب تم اپنی کارکردگی دکھائو اور آرمینیا نے آذربائیجان پر حملہ کر دیا لیکن آرمینیا کی کامیابی بہت دور ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے چین اور ایران اور ماسکو از خود اس جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔