وزیراعظم ہی فوج کی پوزیشن خراب کر رہے ہیں

372

وزیراعظم عمران خان کا لہجہ تند اور تلخ ہوتا جا رہا ہے اس کا مطلب یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی تو کچھ کہہ رہا ہے۔ کچھ طلب کیا جا رہا ہے اور وہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ امریکا اور مغربی دنیا سے ان کے تعلقات انہیں مضبوط بنائیں گے۔ ان کی پارٹی نہایت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے اور وہ صرف اگلے پانچ سال نہیں 20 سال حکمران رہیں گے۔ جب ایسی سوچ پیدا ہو جائے تو ہونے والا حادثہ ذرا پہلے وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔ عمران خان نے وہ بات کہہ ڈالی جو آج تک کسی حکمران نے کہی نہیں شاید صرف ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز، استثنا یا کچھ بھی کہا جائے حاصل ہے کہ انہوں نے کئی کئی جرنیلوں کو فارغ کیا۔ میاں نواز شریف یہی کام کرنے جا رہے تھے کہ جرنیلوں نے انہیں فارغ کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے بہت دو ٹوک اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر آئی ایس آئی سربراہ نے استعفیٰ مانگا تو برطرف کر دوں گا۔ میں فوج کی نرسری میں نہیں پلا۔ منتخب وزیراعظم ہوں کس میں جرأت ہے مجھ سے استعفیٰ لے۔ کوئی آرمی چیف پوچھے بغیر کارگل پر حملہ کرتا تو اسے کھڑے کھڑے فارغ کر دیتا۔ کبھی نہیں کہا کہ امپائر کی انگلی کا مطلب فوج ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ فوج نہ ہوتی تو ملک تین ٹکڑے ہو جاتا۔ جنرل راحیل نے نواز شریف کے کہنے پر دھرنا ختم کرنے کو کہا میں نے انکار کر دیا۔ جنرل باجوہ مجھ سے پوچھ کر اپوزیشن سے ملے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان تاریخ کے پہلے ہی حکمران ہیں جنہوں نے فوج کو اتنا زیادہ موضوع گفتگو بنوایا ہے جتنا کسی نے نہیں بنوایا۔ انہوں نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے وقت فوج اور اس کے سربراہ کا مذاق بنوایا خود بھی اس کی زد میں آئے۔ کئی ماہ بعد جب توسیع ہو گئی تب جا کر رفتہ رفتہ یہ مذاق ختم ہوا۔ لیکن وہ بار بار فوج سے تعلقات اور حکومت کے پیچھے فوج کھڑی ہے یا ایک ہی پیج پر ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں اور دوسری جانب کہہ رہے ہیں کہ میں فوج کی نرسری میں نہیں پلا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ اس قسم کی گفتگو کرکے وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ فوج کی کوئی نرسری ہے جہاں سیاستدان پالے جاتے ہیں۔ شیخ رشید اگر یہ باتیں کریں تو اسے کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا بلکہ ملک کا وزیراعظم ایسی باتیں کرے تو ان کی سرکاری حیثیت ہوتی ہے۔ پاکستان کے خلاف ایف اے ٹی ایف اور دیگر ادارے اسی لیے متحرک ہوئے کہ پاکستان کی سرکاری شخصیات،جنرل پرویز مشرف، سابق وزیر داخلہ رحمن ملک، بے نظیر بھٹو وغیرہ نے جرائم کی تصدیق کی۔ اپنے اس وقت کے مخالفین کو متنازع بنانے کے لیے ان کے نام سرکاری طور پر بتائے کہ فلاں فلاں لوگ ملوث ہیں۔ اس کے بعد سے کشمیر میں پاکستانی مداخلت بھارتی الزام سے بڑھ کر ایک حقیقت بن گئی۔ جنگ اور تحریک آزادی دہشت گردی قرار پائی۔ اس طرح اب عمران خان بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج کی نرسری وجود رکھتی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے اس قسم کی گفتگو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ وہ اب تک خود کو اپوزیشن لیڈر بلکہ اپوزیشن کا ایک عام لیڈر سمجھتے ہیں جو کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ وزیراعظم کا منصب ذمے داری کا تقاضا کرتا ہے۔ انہیں کوئی بات کہنے سے قبل سوچنا چاہیے۔ جہاں تک کارگل پر حملے کا تعلق ہے تو وہ صرف غلطی نہیں تھا جب حملہ کر دیا اور بھارت کی گردن پاکستان کے ہاتھ میں آگئی تو وزیراعظم پر دبائو ڈالا گیا کہ فوج واپس بلانے کا علان کرو اور اچانک اعلان نے بہت نقصان پہنچایا۔ اس زمانے میں دنیا بھر میں کشمیری پر عزم تھے اور بھارتی ذہن دبائو کا شکار تھے۔ یہ اعصاب کا کھیل تھا لیکن سیاست نے اعصاب شل کر دیے اور پاکستان کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کے قریب پہنچ کر پیچھے چلا گیا۔ کارگل کو صرف نقصان سے تعبیر کرنا بھی غلط ہے۔ اموات دونوں صورتوں میں ہوتیں لیکن کارگل پر موجود رہنے میں زیادہ فائدے کے امکانات تھے۔ اس بحث سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو کیا ہوگیا ہے۔ اگر وہ نواز شریف پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ الطاف حسین بن کر پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو وہ خود سابق وزیراعظم نواز شریف والا لہجہ کیوں اختیار کر رہے ہیں۔ انہیں یہ بات کیوں نہیں معلوم کہ وزیراعظم کے منصب پر متمکن شخص کو گفتگو کس انداز میں کرنی چاہیے۔ ان کے بارے میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بھی تبصرہ کیا ہے کہ ان کے بیانات ناکامی کا اعتراف ہیں۔ کیونکہ عمران خان انتخابات سے پہلے تک جو کچھ کہتے تھے اس سے یہی توقعات پیدا ہوئی تھیں کہ ان کے آتے ہی پاکستان میں خوشحالی کا دور آجائے گا۔ قرضے ختم ہو جائیں گے۔ لیکن عوام کی توقعات کے برعکس یہ کام بھی نہیں ہوئے اور مزید بے روزگاری، مہنگائی اور طوفان بدتمیزی آگیا۔ جن غیر ملکی اداروں کی مداخلت اور ان کے پاس جانا خودکشی تھا پہلے ہی ہلے میں ان کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ تو پھر عوام کا بپھرنا فطری تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی نااہلی کے بارے میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں لیکن دو سوا دو سال کی محنت کے بعد ان کی حکومت نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کو مظلوم بنا دیا ہے بلکہ کئی جائزوں کے مطابق اگر ابھی فوری الیکشن کرائے جائیں اور کوئی ادارہ مداخلت نہ کرے تو پی ٹی آئی کہیں نہیں ہے صرف مسلم لیگ ن نظر آئے گی۔ یہ صورتحال پیدا کرنے کا سہرا مسلم لیگ کو نہیں بلکہ عمران خان کو جاتا ہے۔ ویسے عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے آخری دنوں اور وزیراعظم بننے کے ابتدائی دنوں میں ریاست مدینہ کی جو بات کی تھی اس کے مطابق انہیں اس ریاست کے سربراہ کے طور پر امیر المومنین ہی بننا تھا لیکن وہ میاں نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف امیر المومنین بننا چاہتے تھے۔ اگر وہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے تو آپ کو کیا تکلیف تھی۔ لیکن عمران خان صاحب نے امیر المومنین کے منصب اور اس اسلامی اصطلاح کا ذکر استہزائیہ انداز میں کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے تمام اداروں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی وہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے۔ اس میں کیا خرابی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نواز شریف امیر المومنین بننے کے قابل ہی نہیں تھے لیکن امیر المومنین کے ماتحت تمام ادارے ہوتے ہیں وہ خود یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمام ادارے حکومت کے ماتحت ہیں جس کو چاہوں گا استعمال کروں گا۔ گویا وہ بھی وہی اعلان کر رہے ہیں جو نواز شریف کے بارے میں وہ کہہ رہے ہیں۔ وزیراعظم کو امیر المومنین کے منصب کا مذاق اڑانے پر اللہ سے توبہ اور عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔ مسلمان اس اصطلاح کو بہت مقدس مانتے ہیں۔ یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ پلے بوائے کی زندگی گزار کر کسی توبہ اور اعتراف کے بغیر اچانک ریاست مدینہ اور اسلامی حکومت کی باتیں کرنے لگیں۔ ایسا کرنے کے لیے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ باقی جو باتیں وزیراعظم نے فوج کے بارے میں کہی ہیں وہ جانیں اور فوج جانے۔ ہوتا تو یہ ہے کہ ایک میجر وزیراعظم ہائوس میں جا کر احکامات پہنچاتا ہے اور وزیراعظم چوں بھی نہیں کرتا۔ ایسی باتیں کرکے انہوں نے جنرل باجوہ کی پوزیشن مزید خراب کر دی ہے۔