اسلامو فوبیا کے اثرات

330

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک خطاب میں یہ کہہ کرکہ آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر نبی کریمؐ اور قرآن پاک کی بے حرمتی مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہے، دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک میں مسلمانوں کو نفرت اور ظلم کا سامنا ہے، دنیا میں اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوا ہے، مساجد اور مزارات کو نقصان پہنچایا گیا ہے، آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر نبی کریمؐ کی توہین ہوئی ہے، قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی ہے اس سلسلے میں فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو میں ایک بار پھر شائع ہونے والے اسلام مخالف خاکے اس کی تازہ مثال ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کو کوئی عالمی دن منانے کا اعلان کرنا چاہیے۔ دریں اثناء تین دن قبل پیرس میں چارلی ہیبڈو کے سابقہ دفاتر کے قریب چاقو کے حملے کے الزام میں زیر حراست ایک 25سالہ پاکستانی نژاد نوجوان جس کی شناخت ظہیر حسن محمود کے نام سے ہوئی ہے کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ دائر کردیا گیا ہے۔ تفتیش کاروں کے مطابق ملزم نے ابتدائی تفتیش میں بتایا ہے کہ اس نے یہ حملہ چارلی ہیبڈو میں پیغمبر آخر الزماںسیدنا محمد ؐ کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر غصے میں ردعمل کے طور پر کیا ہے۔ دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ یہ حملہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب جنوری 2015 میں لگاتار تین دن تک دہشت گرد حملوں میں ملوث 14مشتبہ ملزمان جن میں دو مرکزی ملزمان سعید اور شریف کے علاوہ بارہ دیگر شریک ملزمان شامل ہیں کا ٹرائل جاری ہے یہ حملے بھی چارلی ہیبڈو کے دفتر سے شروع ہو کر سپر مارکیٹ میں ختم ہوئے تھے جن میں سترہ افراد مارے گئے تھے۔ خیال رہے کہ اس واقعے سے پہلے اور بعد میں بھی چارلی ہیبڈو نبی کریم ؐ کے گستاخانہ خاکے شائع کرتا رہا ہے۔
اس حقیقت سے ہرکوئی بخوبی واقف ہے کہ تمام مذاہب کی کتب اور عبادت گاہوں کے احترام کو یقینی بنانا اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کا حصہ ہے مگر پچھلے کچھ عرصے سے یورپ میں آزادیٔ اظہار کے نام پر اسلامی شعائر، قرآن پاک اور پیغمبر اسلام ؐ کے شان میں جو گستاخیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں وہ نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان کے مطالبے کی روشنی میں اقوام متحدہ کواس کا نوٹس بھی لینا چاہیے۔ اس بات میں زرہ برابر بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام دشمن قوتیں قرآن پاک کی توہین اور پیغمبر اسلام، خاتم النبیین ؐ کے خاکے شائع کر کے عالمی امن کو تباہ اور دنیا کو عالمی جنگ کی آگ میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔ فرانسیسی حکومت اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے اس کی مذمت نہ کرنا قابل تشویش ہی نہیں ہے بلکہ یہ طرز عمل کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف بھی ہے۔
مغرب کی اسلام بے زاری اور اسلام دشمنی کے واقعات جہاں مغربی ممالک کی جانب سے مسلمان ممالک اور ان کے باشندوں کے خلاف لاگو کیے جانے والے امتیازی قوانین سے لگائے جا سکتے ہیں وہاں فرانس، امریکا، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، جرمنی، ہالینڈ اور فرانس جیسے نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران قرآن عظیم الشان اور نبی کریم ؐ کی شان میں جوگستاخیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں ان سے بظاہر خوبصورت اور دلکش نظر آنے والے ان معاشروں اور ان میں رہائش پزیر منفی اور تنگ نظرسوچ کے حامل عناصر کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ان معاشروں کا افسوسناک پہلو یہ ہے ان ممالک میں یہودیت اور نصرانیت کے خلاف کچھ کہنے اور لکھنے پر تو پابندی ہے لیکن جب بات اسلام اور نبی آخر الزمان ؐ کی آتی ہے تو یہ معاشرے اس ضمن میں آخری حدوں کو چھونے والی ڈھٹائی اور بے شرمی کو آزادی اظہار کا لبادہ اوڑھا کر مسلمانوں کا منہ چڑاتے ہیں۔ ان معاشروں کی اسلام کے خلاف منظم مہم جوئی کا اندازہ لگانے کے لیے جہاں قرآن پاک کی بار بار بے حرمتی اور نبی کریم ؐ کی شان میں کی جانے والی گستاخیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو اب تک کسی بھی مغربی ملک میں قانون کی گرفت میں نہیں لایاجاسکا وہاں گزشتہ دنوں ہالینڈ کے ایک کٹر اسلام دشمن سیاست دان جیرٹ ولڈرز کی عدالتی احکامات پر رہائی سے بھی ان ممالک میں ہر سطح پر اسلام کے خلاف پائے جانے والے منفی رجحانات کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ وائلڈرز یورپ کے انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں میں سے ایک ہے اور وہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہالینڈ میں امیگریشن بحث کو ہوا دینے میں پیش پیش رہا ہے۔ 56 سالہ وائلڈرز کا عدالتی فیصلے کے بعد کہنا تھا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ میں امتیازی سلوک، نفرت اور اشتعال انگیزی کے الزامات میں بے قصور قرار دیا گیا ہوں۔
یاد رہے کہ اس فیصلے پر ہالینڈ کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے اور اس فیصلے کو آزادیٔ اظہارکے نام پر دیگر اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ وائلڈرزکی فریڈم پارٹی کا زیر بحث مقدمے کے بارے میں استدلال تھا کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا اور محض کھل کر اظہارخیال کیا ہے جو اصل میں بہت سے ڈچ لوگوں کے خیالات اور جذبات کی ترجمانی ہے۔ واضح رہے کہ وائلڈرز کو دو سال قبل ایک انتخابی جلسے میں امتیازی سلوک کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی، اس پر الزام تھا کہ اس نے اپنے حامیوں کو ہالینڈ میں مقیم مراکشی باشندوں جن کی ایک محتاط اندازے کے مطابق ہالینڈ میں چار لاکھ سے زائد آبادی ہے کے خلاف اُکسانے کی کوشش کی تھی جس پر ان کے خلاف نسلی بنیادوں پرنفرت اور تعصب پھیلانے کے سنگین الزامات عائد کر کے مقدمہ قائم کیاگیا تھا جس میں اب عدالت نے انہیں بری کردیا ہے۔