فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اعلان کیا ہے کہ فرانس میں مسلمان انتہا پسندی نہیں چلے گی۔ حجاب پر مکمل پابندی رہے گی۔ مدارس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ مسلم دنیا میں اس خبر کو غیر متوقع نہیں سمجھا گیا ہے بلکہ مغرب کے اسلام کے خلاف عناد اور سابقہ رویوں کی روشنی میں مسلمانان عالم نے اسے اسرائیل، امریکا، بھارت، برما، چین وغیرہ جیسا فیصلہ ہی سمجھا ہے۔ جہاں انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی، انسانیت وغیرہ سب کچھ ہے، اسلام اور مسلمانوں کے لیے آزادیوں کا کوئی نام نہیں ہے۔ صدر امانویل نے فرانس کے نام نہاد سیکولرازم پر خود ہی خط تنسیخ پھیرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس جیسے سیکولر ملک میں مسلم انتہا پسندوں کی طرف سے ایک متوازی معاشرہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم فرانسیسی جمہوریہ میں بیرونی مداخلت سے پاک روشن خیال اسلام کی بہت گنجائش موجود ہے۔ یہ وہی روشن خیال اسلام ہے جس کی گنجائش جنرل پرویز، بے نظیر بھٹو اور زرداری وغیرہ بھی پاکستان میں نکالتے تھے جو امریکا، برطانیہ، فرانس اور دنیا بھر میں قابل قبول تھا۔ لیکن فرانس کے صدر کا مسئلہ ہے کیا۔ انہیں ہوا کیا ہے اچانک وہ سیکولر ملک کے امن و سکون کو برباد کرنے والے کام کیوں کرنے لگے۔ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ فرانس میں اس پر کوئی ردعمل آئے اور یوں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کام آسان ہوجائے۔ معاملہ صرف یہی نہیں ہے۔ فرانس کے 60 لاکھ مسلمان اور ان کے رہنما فرانسیسی معاشرے اور روایات سے بخوبی واقف ہیں وہ ایسے بے ہودہ الزامات کو غلط ثابت کرنا بھی جانتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فرانس کی حکومت بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح مسائل کا شکار ہے۔ 2019ء میں بھی فرانس کا بنیادی مسئلہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری تھا۔ عالمی وبا اور لاک ڈائون وغیرہ نے اس میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ 2016ء میں بھی تھا۔ 2017ء کے انتخابات کے وقت بھی یہ مسائل تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانس کی حکومت بھی پاکستان کی عمرانی حکومت کی طرح 2 سال سے زیادہ گزارنے کے باوجود ’’نئی‘‘ حکومت ہے۔ اسے بھی مسائل کے حل کی راہ نہیں سوجھ رہی ہے۔ اس لیے جیسے ایشوز اور تماشے پاکستان میں لگائے جارہے ہیں اور عوام کی توجہ دوسری جانب مبذول کرائی جارہی ہے اسی طرح فرانس میں بھی حکومت اپنے ملک کے مسائل اور روایات کی روشنی میں نت نئے ایشوز اٹھا رہی ہے۔ صدر ماکروں کو معلوم ہے کہ اسلام کے خلاف بات کرنا آزادی اظہار رائے کی آڑ میں فرانسیسی آئین کے دائرے میں رہے گی۔ فرانسیسی صدر نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو زہر اُگلا ہے اسے یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ 2022ء کے انتخابات سے قبل وہ اپنی مقبولیت کی مہم چلارہے ہیں۔ ٹرمپ ہو یا مودی، نیتن یاہو، بنگلادیش کی حسینہ واجد ہو یا برما کے حکمران اور مصری فوجی ڈکٹیٹر سب کے سب اسلامی انتہا پسندی کا نام لے کر بات کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی کا کھلم کھلا اعلان اور اظہار تو یہ لوگ کررہے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے حجاب پر مکمل پابندی کی دھمکی دی ہے اور مدارس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ یہ کارروائی اس طرح ہوگی کہ تمام بچے اگلے سال سے لازماً اسکول جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ فرانسیسی حکومت کو یہ خیال اب کیوں آیا کہ تمام بچوں کے لیے اسکول جانا لازمی ہے۔ ظاہر ہے اس طرح بچے مدرسوں میں نہیں جائیں گے اسکول جائیں گے۔ دوسرا مسئلہ فرانس کے شارلی ہیبڈو حملے کے ملزمان کے خلاف مقدمے کی کارروائی سے جو حال ہی میں شروع ہوئی ہے۔ ماکروں کا یہ خطاب اس مقدمے پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ جو نام نہاد سیکولرازم کے بھی خلاف ہے اور عوامی کارروائی پر دبائو ڈالنے کی سرکاری کوشش بھی ہے۔ فرانسیسی حکومت کھل کر تو یہ نہیں کہہ سکتی کہ حملے کے ملزمان کو سخت سزا دی جائے لیکن وہ فضا تو ایسی سازگار بناسکتی ہے کہ جب کوئی سزا دی جائے تو زیادہ ردعمل نہ آئے۔ اگر دیکھا جائے تو ماکروں نے فرانس کے سیکولرزم کو بھی پارہ پارہ کیا ہے اور عالم اسلام کے مسلمانوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔ وہ جس تناظر میں کسی ایک مخصوص مذہب کے لیے متوازی معاشرہ بنانے کی کوشش کی بات کررہے ہیں وہ فرانس میں موجود مسلم اکثریتی محلے ہیں جہاں مسلمان اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں تاہم انہوں نے کبھی فرانسیسی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی یا کبھی فرانس کی کسی مذہبی اکائی پر اُنگلی اُٹھائی ہے۔ دراصل فرانسیسی صدر کا یہ خطاب اسلامو فوبیا کی راہ بھی ہموار کرے گا۔ فرانس میں حکومت اب بھی بیروزگاری اور معاشی مسائل کا شکار ہے اسے اس سال اپنا معاشی توازن بہتر بنانا ہے تا کہ اگلے سال کا بجٹ بہتر ہوسکے اور اگر یہ نہ ہوسکا جو آسان نہیں لگ رہا تو پھر لوگ سوالات اُٹھائیں گے۔ لہٰذا ان سوالات سے بچنے کے لیے فرانس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے۔فرانسیسی مسلمان جو 60 لاکھ سے زیادہ تعداد میں ہیں ان میں سے بڑی تعداد کئی نسلوں سے وہاں آباد ہے۔ وہ فرانسیسی روایات اور انداز میں رچ بس گئے ہیں لیکن اسلامی احکامات پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ یقینا ان کے لیے آنے والے دن ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم یہ چیلنج صرف فرانس میں نہیں پوری دنیا میں مسلمانوں کو درپیش ہیں۔ خواہ وہ غیر مسلم ممالک ہوں یا مسلمان ممالک جو سیکولرزم کے دلدادہ رہے ہیں۔ ان ممالک کے عوام تو پکے مسلمان ہیں انہیں مختلف حیلوں سے فرقہ واریت میں الجھایا جاتا ہے لیکن حکمران جعلی سیکولر ہیں لہٰذا وہ بھی اسلام اور اسلامی اصلاحات کے حوالے سے ایسی ہی باتیں کرتے ہیں جیسی ماکروں نے کی ہیں۔ ادھر آذربائیجان اور آرمینیا کے تنازع کی آڑ میں فرانس نے تُرکی کے خلاف شرانگیز مہم شروع کررکھی ہے۔ تُرک حکومت کے تحت فرانس اور جرمنی میں کئی مساجد اور مدارس چلتے ہیں اور ان کا نظام چلانے کے لیے بھی تُرکی سے علما کو بھیجا جاتا ہے۔ یہ دونوں حکومتیں پہلے بھی اپنے ہاں انقرہ کے اثرو نفوذ کو کم کرنے کے لیے قدغنیں عائد کرچکی ہیں اور پیرس حکومت کی حالیہ شر انگیزی کو براہ راست تُرکی سے دشمنی بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ فرانسیسی صدر کی مہم اس وقت صرف فرانس میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف نہیں ، بلکہ تمام عالم اسلام کے خلاف ہے ،جس کی نمایندگی اس وقت تُرک صدر رجب طیب اردوان کررہے ہیں۔ تُرکی میں بھی جرمنی اور فرانس کے ماتحت مشنری اسکول چل رہے ہیں اور انقرہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مؤثر ردعمل دے کر فی الفور ان مشنری اداروں کو بند کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ ماکروں کے بیان کے بعد فرانسیسی مسلمانوں کی تنظیم نے اجلاس بھی طلب کیا ہے اور توقع ہے کہ ماکروں کو یہ یہاں مہنگا پڑ جائے گا۔ یا پھر فرانس بھی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سیکولرزم کی بنیادوں کو خود ڈھا دے گا۔