تاریخ کا دوراہا

250

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ قوموں کی تاریخ میں یہ ٹرننگ پوائنٹ روز نہیں آتے۔ ایسے مواقع صدیوں اور عشروں کے بعد آتے ہیں قوموں کے دروازے پر ہلکی سی دستک سنائی دیتی ہے۔ کوئی اس دستک کو سن کر تاریخ کا ہاتھ تھام کر اس کا ہم سفر بنتا ہے تو کوئی اس دستک کو سن کر ہوا میں اُڑا دیتا ہے۔ وقت کسی کا انتظار کیے بغیر گزرجاتا ہے اور اس سے فائدہ نہ اُٹھانے والے پھر تنہا اور بے نیل ومرام حسرت وحیرت کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں۔ دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندے آمنے سامنے تھے تو امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو طالبان نمائندے کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے۔ سترہ برس کی مارا ماری کے بعد یہ سب کچھ ایک معجزہ سا لگ رہا تھا۔ امریکا نے سترہ برس تک طالبان ہی کو نہیں اس اصطلاح کو نفرت کا نشان بنائے رکھا۔ طالبانائزیشن کی اصطلاح گھڑ کر مغرب کو خوف زدہ کیے رکھا گیا اور طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کی گئی مگر امریکا کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور آج طالبان کے نمائندے کے ساتھ مائیک پومپیو کی تصویر اس ناکامی کا پتا دے رہی ہے۔ امریکا کی طرح اس منظر نامے میں افغان حکمرانوں کے لیے بھی شکست کا ایک تاثر ہے کہ وہ بھی طالبان کے خلاف اپنی بندوق امریکا کے کندھے پر رکھ کر چلانا چاہتے تھے آخر کار انہیں بھی طالبان کے وجود کو ایک زمینی حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا پڑا۔ خود طالبان کے لیے بھی یہ لمحہ فکر ہے کہ انہیں افغان حکومت کے ساتھ میز پر بیٹھنا پڑ ا اور اس میں وہی لوگ شامل ہیں جن سے طالبان کی خوں ریز لڑائیاں نائن الیون سے پہلے بھی جاری تھیں۔ مفاہمت کے یہ سوتے اگر بہت پہلے پھوٹے ہوئے تو خطے میں بہت سی المناک کہانیوں نے جنم ہی نہ لیا ہوتا۔ یہ وہ مقام ہے جس تک پہنچنے میں افغانوں کو چالیس برس لگ گئے۔ یہ مرحلہ نوے کی دہائی میں آیا ہوتا تو آج افغانستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی اور وہ ناخوش گوار واقعات جن کا نہ صرف افغانوں بلکہ پورے خطے کو سامنا کرنا پڑا دیکھنے کو نہ ملتے۔
انٹرا افغان ڈائیلاگ افغانوں کی تاریخ کا ایک اہم ترین موڑ ہے۔ جینوا معاہدے میں اس پہلو کو بری طرح نظر انداز کیا گیا تو افغان جنگ جیتنے کے باوجود ایک اور جنگ میں اُلجھ گئے۔ افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی موت اور کابل پر قبضے کے باوجود افغان عوام فتح کا لطف نہ اُٹھا سکے کیونکہ انہیں خانہ جنگی نے گھیر لیا تھا۔ اس ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے سب فریق انٹرا افغان ڈائیلاگ کو کامیاب بنائیں تو ایک نئی تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔ ایسا نہ ہوا تو یہ افغانوں کی بدقسمتی تو ہوگی خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بھی اچھا شگون نہیں ہوگا کیونکہ دہشت گردی، خانہ جنگی اور فتنہ وفساد کبھی سرحدوں کے اندر تک محدود نہیں رہتا اس کے اثرات کم یا زیادہ دوسرے ملکوں پر بھی منفی ہی پڑے ہیں اور پاکستان سے زیادہ اور کون ملک اس حقیقت سے آشنا ہے۔ نوے کی دہائی کے اوائل کے بعد آج افغانستان ایک بار پھر تاریخ کے دوراہے کھڑا ہے۔ انٹرا افغان ڈائیلاگ کے آغاز نے متحارب گروپوں اور شورش زدہ سرزمین کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں وہ امن، استحکام اور ترقی کی منزل کی جانب بھی سفر کرسکتے ہیں اور یہ موقع گنوا کر تشدد، کشمکش اور نفرت کی موجودہ راہوں پر اپنا سفر بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ سوویت افواج کے انخلا کے وقت اسی لمحے نے افغانوں کے دروازے پر دستک دی تھی مگر انہوں نے یہ دستک سن کر نظر انداز کر دی۔ عین ممکن ہے کہ انہیں اس دستک پر اپنا در کھولنے کی اجازت ہی نہ دی گئی ہو کیونکہ بعد میں پیش آنے والے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ افغانستان کو سوویت افواج کے انخلا کے بعد ایک منظم سازش کے تحت قومی مفاہمت سے دور رکھا گیا۔ اس کا شورش کا تعلق خطے کے مستقبل سے تھا۔ ایک نئی دنیا کی تسخیر وتشکیل سے تھا۔ یہ دنیا اب بڑی حد تک تشکیل پاچکی ہے مگر افغانستان بدستور خانہ جنگی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ صرف افغانستان ہی نہیں پاکستان بھی اس جنگ کی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔ پہلے کشیدگی کے جو سائے پاکستان کی مشرقی سرحد پر منڈلایا کرتے تھے اب مغربی سرحد بھی ان سایوں کی زد میں ہے۔ کنٹرول لائن سے زیادہ فوجی جوان اب افغان سرحد پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے مشرقی اور مغربی سرحد کا فرق ہی مٹ کر رہ گیا ہے۔ اس صورت حال میں افغان انٹرا ڈائیلاگ کا آغاز سب سے نمایاں اور ماضی سے مختلف معاملہ ہے۔ یہ سرنگ کے دوسری جانب روشنی کی کرن ہے۔ ایسے میں افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا دورہ پاکستان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ وادیٔ پنج شیر کے شہرہ آفاق کمانڈر احمد شاہ مسعود کے دست راست ہیں۔ عبداللہ عبداللہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دو جملے پاکستان اور افغانستان کے نئے مستقبل اور نئے تعلقات کی داستان کا عنوان بن سکتے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں خطاب کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ افغان سرزمین ہمسایوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
اس کے جواب میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے سرپرست نہیں دوست بننا چاہتے ہیں۔ یہ دو جملے اگر دونوں ملکوں کی پالیسی کے راہنما اصولوں کی بنیاد بن جائیں تو پاکستان اور افغانستان میں برسوں کی ناخوش گوار کہانی ایک نیا موڑ مڑ سکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان زمانے بھر کی تلخیاں انہی دو جملوں سے منسلک رہی ہیں۔ افغانستان میں یہ تاثر بہت گہرا رہا کہ پاکستان افغانستان کو اپنے پانچویں صوبے کے انداز میں چلانا چاہتا ہے۔ اسی تاثر سے افغانستان میں پاکستان مخالف حلقوں نے اپنی طاقت کشید کی اور اپنے موقف کی ایک پوری عمارت کھڑی کی۔ بعض افغان جہادی کمانڈروں کی ان تقریروں سے اس موقف کو تقویت ملتی رہی کہ سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہوگی اور اس سے جمال الدین افغانی کے خواب کی تکمیل ہوگی۔ دوسری طرف پاکستان کو افغانستان کے برسر اقتدار طبقات سے ہمیشہ یہی گلہ رہا کہ ان کی چھتری تلے بھارت پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف رہا ہے۔ بھارت نے افغانستان کو پاکستان کے گھیرائو کے زاویے کے سوا کسی اور نظر سے نہیں دیکھا۔ دونوں ملکوں کے ان تحفظات کی ٹھوس وجوہات تھیں۔ اب اگر یہ کہانی خوش گوار موڑ پر پہنچ کر ختم ہوتی ہے تو اسے ایک معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان ایک نئی شاہراہ پر سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔