پہلے گڑ کھانا تو چھوڑیے

282

جسارت میں شائع ہونے والی افسوسناک خبر کے مطابق ’’بھارتی عدالت نے بابری مسجد شہید کرنے کے مقدمے میں بی جے پی کے مرکزی رہنما ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اومابھارتی سمیت تمام 32 ملزمان کو بری کردیا۔ لکھنؤ کی خصوصی عدالت نے بدھ کو اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ مسجد کو کسی منصوبہ بندی کے تحت شہید نہیں کیا گیا اور نہ ہی مقدمے میں نامزد ملزمان کے خلاف ثبوت فراہم کیے گئے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا کہ 6 دسمبر کو غیر معمولی حالات پیش آسکتے ہیں تاہم اس رپورٹ پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا۔ اس میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ فیصلہ نہ صرف یک طرفہ ہے بلکہ کئی لحاظ سے تضادات کا شکار بھی نظر آتا ہے۔ اس فیصلے میں سب سے بڑا خلا یہ ہے کہ ایک جانب تو اس واقعے میں ملوث افراد عدم ثبوت کی بنیاد پر معصوم قرار دے کر باعزت شہری بنا دیے گئے تو دوسری جانب اس سارے واقعے کو اکسا اور بھڑکا کر لوگوں میں اشتعال بڑھانے کا سبب بھی بتایا گیا اور اس کے روح رواں لال کرشن ایڈوانی کا نام بھی لیا گیا پھر بھی اس گھناؤنے سانحے کی ذمے داری کسی پر بھی نہیں ڈالی گئی۔ یہ فیصلہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لکھنؤ کی عدالت ریاستی اور جنونی ہندوئوں دباؤ کا شکار ہے اور وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتی جس سے انتہا پسند ہندو، ججوں اور ان کے خاندان والوں کی اسی طرح اینٹ سے اینٹ بجا کر نہ رکھ دیں جس طرح لال کرشن ایڈوانی کے بھڑکائے جانے پر انہوں نے بابری مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی۔
پاکستان کی حکومت نے بھارتی عدالت کے اس فیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اور عدالت کے اس فیصلے کو نہ صرف عدل و انصاف کے خلاف قرار دیا ہے بلکہ اسے انتہا پسند ہندؤںکی تحریک کو ایندھن فراہم کرنے کے مترادف ٹھیرایا ہے۔ پاکستان کا یہ رد عمل ایک حق پسندانہ عمل ہے اور اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا کو اس فیصلے کا سختی کے ساتھ نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ایسے فیصلے کسی بھی ملک میں رہنے والی اقلیتوں کی ذہنی الجھنوں کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔ بے شک لکھنؤ کی عدالت کے اس فیصلے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے لیکن خود پاکستان کو بھی یہ بات ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا پاکستان کی عدالتیں کیا اپنے ہر فیصلے میں مکمل آزاد ہیں۔ ان پر ریاست یا حکومت کا کوئی دباؤ نہیں اور کیا ہر فیصلہ عدل و انصاف پر ہی
اپنے انجام تک پہنچتا ہے۔ اس بات پر بھی غور کرنا پڑے گا کہ بھارت اور بھارتی عدلیہ ایک ایسے مذہب کے حامل لوگوں کا ملک ہے جہاں عدل و انصاف اور آخرت کی جوابدہی کا وہ تصور ہی موجود نہیں جو مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا تصورِ عدل و انصاف ہے۔ بھارت کی ہندو عدالت نے جو فیصلہ بھی دیا ہے وہ ہندؤں کے خلاف نہیں، مسلمانوں کے خلاف دیا ہے جبکہ پاکستان کی مسلمان عدالتوں کے مسلمان جج 98 فی صد فیصلے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے درمیان کر رہے ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی عدالتیں تمام تر شواہد و ثبوت ہونے کے باوجود سنگین ترین جرائم میں ملوث بااثر شخصیات کو عدم ثبوت کو بنیاد بنا کر رہائی کے پروانے جاری نہیں کردیا کرتی ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت ساری شخصیات پر مقدمات درج ہی نہیں کیے جاتے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور کا سانحہ، سانحہ ساہیوال اور موٹر وے پر اتنے سنگین واقعہ اسی قسم کے واقعات کا کھلا ثبوت ہیں۔ نجانے کتنے فیصلے ایسے بھی ہیں جن میں بے قصوروں کو پھانسی دیے جانے کے برسوں بعد عدالت ان کو بے قصور قرار دے کر رہائی کے پروانے بھی جاری کر رہی ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح بہت ساری بااثر شخصیات جن میں راؤ انوار جیسا پولیس انسپکٹر بھی موجود ہے، 400 سے زائد افراد کو ماورائے عدالت قتل پر ملازمت سے برخواست کیے جانے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔
ایک جانب بھارت کا ہندو متعصبانہ رویہ ہے تو دوسری جانب ہم اس پر اپنا دباؤ بڑھانے کے بجائے کے اس کی راہ میں اپنی پلکیں تک فرشِ راہ کیے ہوئے ہیں۔ گوردوارے تعمیر کیے جارہے ہیں۔ مندر کے لیے سیکڑوں مرلے اسلام آباد جیسی قیمتی زمین مفت عطا کر رہے ہیں، پرانے مندروں کی تزئین و آرائش کے لیے فنڈ جاری کر رہے ہیں، ہندؤں اور سکھوں کے لیے سرحدوں کے سارے دروازے وا کیے ہوئے ہیں۔ ہندو اور ظالم سکھوں کے لیے تو ہمارے دل میں اتنی گنجائش ہیں لیکن پورے ملک میں برس ہا برس سے تعمیر چھوٹی بڑی ہر قسم کی سیکڑوں مساجد ڈھائی جا رہی ہیں۔ جہادیوں پر بمباریاں ہو رہی ہیں اور مدرسوں میں حملے کر کے دینی تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کی زندگیوں تک کا لحاظ کیے بغیران کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ جب ہمارا خود کا رویہ اتنا غیر منصفانہ، دباؤ کا شکار اور ظالمانہ ہوگا تو پھر اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا ہماری جانب سے کسی دوسرے ملک میں غیر عادلانہ فیصلوں پر کسی احتجاج کو کیسے قبول کرے گی۔ ضروری ہے کہ ہم ایک اسلامی ملک اور مسلمان ہونے کے حوالے سے نہ صرف حکومتی امور کو درست کریں بلکہ پاکستان کے نظام عدل کو بھی مثالی بنائیں تاکہ ظلم و جبر یا دیگر ممالک میں عدل و انصاف کے فیصلوں کے خلاف اٹھائی جانے والی ہماری آواز میں وزن پیدا ہو سکے۔