صدر ٹرمپ نے امریکی جمہوریت کا بدنما چہرہ بے نقاب کر دیا

375

فوکس نیو ز کے معروف اینکر کرس والیس اُس مباحثے کے سربراہ تھے جو صدر ٹرمپ اور صدارتی امیدوار جو بائیڈن سے سوالات پوچھنے کی ذمے داری پوری کر رہے تھے لیکن مباحثے کے دوران معلوم ہوکہ کرس والیس ’’صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آئے۔ ان کے بار بار منع کر نے کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مدِ مقابل صدارتی امیدوار جو بائیڈن کو ان کی گفتگو کے دوران 72 مرتبہ روکنے کی کوشش کرتے رہے۔
صدر ٹرمپ سے کرس والیس نے پوچھا کہ ’’کیا وہ سفید فام نسل پرستوں اور ملیشیا کے ارکان کی مذمت کریں گے جنہوں نے ملک میں نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو مزید اُکسایا‘‘۔ ٹرمپ نے جواب میں کہا کہ ’’میں کہوں گا کہ امریکا میں جو کچھ غلط ہورہا ہے وہ سب کا سب بائیں بازو کی جانب سے ہو رہا ہے، اور اس میں دائیں بازو والے شامل نہیں‘‘۔ مد مقابل صدارتی امیدوار جو بائیڈن اور کرس والیس دونوں نے صدر ٹرمپ پر سفید فام نسل پرستوں کی مذمت کرنے کے لیے زور دیا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور بار بار وہ یہی کہتے رہے کہ اصل میں خطرہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے فاشزم مخالف گروہوں سے ہے اور یہ ایک کمزور سا اتحاد ہے۔
اس مباحثے کے بارے سی این این کا کہنا ہے کہ: In Trump-Biden debate chaos, China and other opponents of democracy are the big winners
اس مباحثے کے بعد پوری دنیا کے جمہورت مخالف چین اور دیگر ممالک کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہورت کا اگر یہ حال ہے تو اس سے بہتر یہ ہے کہ جمہوریت کے بغیر ہی حکومت کے کارروبار کو چلایا جائے۔ اس مباحثے کے بارے میں The Guardian کا کہنا ہے کہ:Donald Trump ensures first presidential debate is national humiliation
دی گارجین کا کہنا ہے کہ اس مباحثے نے پوری دنیا میں امریکی جمہوریت اور قومی حمیت کو بے عزت کیا ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی کا Tass کا کہنا ہے کہ: Kremlin says Biden-Trump debate shows a new trend in US ‘political culture’
’’تاس‘‘ نے بتایا کہ ان کی حکومت کا خیال ہے اس مباحثے سے پتا چلاتا ہے کہ ’’امریکا میں نیا سیاسی کلچر جنم لے رہا ہے‘‘۔
پورے مباحثے پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ دونوں امیدواروں نے نسل پرستی کے سوال کا گول مول جواب دیا۔ دونوں میں سے کسی نے بھی تسلی بخش جواب نہیں دیے۔ جوبائیڈن کی بات جامع تھی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ منظم نسل پرستی کے خلاف کیا کریں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کے مد مقابل صدارتی امیدوار جو بائیڈن سمیت امریکا کے کسی سیاستدان کا یہ کہنا نہیں کہ میں نفرت انگیز گروہوں کا حامی نہیں، اسی لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مد مقابل صدارتی امیدوار جو بائیڈن کھلے انداز میں نہیں بولے۔
امریکا میں صدارتی مباحثے 1960ء میں شروع ہوئے جب ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر جان ایف کینیڈی اور نائب صدر رچرڈ نکسن پہلے ٹی وی مباحثے میں شامل ہوئے تھے۔ کینیڈی کی ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ قریبی افراد کے لیے ترو تازہ نظر آرہے ہیں جبکہ صدر نکسن ایک بیماری سے صحت یاب ہو رہے تھے۔ ان کا سوٹ فٹنگ میں بھی درست نہیں تھا اور وہ اس دوران اپنا پسینہ پونچھ رہے تھے اس لیے ان کو شکست کا سامنا کر نا پڑا۔ 2000 میں ایل گور جارج بش کے مقابلے میں تھے۔ جس میں ایل گور نے جارج بش پر اپنی برتری ثابت کر دی تھی لیکن وہ جیتنے کے باوجود کورٹ سے ہار گئے اور یہ مثال ایک مرتبہ پھر ٹھیک ثابت ہوئی کہ ’’دلہن وہ جسے پیا چاہے‘‘۔
ویسے تو سیاست اور حکومت دونوں ہی میں رشتوں اور دوستی کا خیال نہیں کیا جاتا لیکن امریکی سیاست سے اُٹھنے والی بدبو نے امریکا کے صدارتی مباحثے کو بھی بدنما بنا دیا۔ امریکا کے صدارتی مباحثے کا مقصد ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ معلوم کیا جاسکے کہ کس صدارتی امیدوار میں امریکا کے صدر بنے کی مکمل صلاحیت ہے۔ حقیقت یہ ہے امریکا کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن کا طویل سیاسی سفر مسلسل المیوں کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا رہا ہے۔ 1972ء میں جب وہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تو ان کی بیوی نیلا بائیڈن اور ان ایک سال کی ننھی سے بیٹی ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئیں اور ان کے دو بیٹے ’’بے بائیڈن اور ہنٹر بائیڈن‘‘ اس حادثے میں بچ گئے، 1972ء کے حادثے میں بچ جانے والے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹا بے بائیڈن 2015 میں جو اس وقت امریکا کے اٹارنی جنرل تھے کے دماغ کے کینسر کی وجہ سے موت ہوگئی۔ اس وقت جوبائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے ان کا یہ بیٹا کملا ہیرِس کا ہم جماعت بھی تھا جو اب جوبائیڈن کے ساتھ نائب صدارت کی امیدوار ہیں۔
اس سلسلے میں امریکی صدر ٹرمپ نے مباحثے کے شرکاء کو یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ وہ جو بائیڈن کے دوسرے بیٹے Beau Biden کو نہیں جانتے۔ CBS NEWS لکھتا ہے کہ:
Trump says “I don’t know Beau” Biden while taking aim at Hunter Biden
اس کے برعکس جوبائیڈن کا دوسرا بیٹا ’’ہنٹر بائیڈن‘‘ کا نام لے رہے تھے۔ جن پر کرپشن کا الزام ہے:
اس سلسلے میں Forbes نیوز کا کہنا ہے کہ:
Trump Repeatedly Raised Hunter Biden’s Alleged $3.5 Million Payment From A Russian Billionaire—Here’s What That Is
صدر ٹرمپ اس جملے کو بار بار بیا ن کرتے رہے جس کے جواب میں بائیڈن نے ٹرمپ کو ’’شیٹ اپ‘‘ کہہ کر خاموش کر دیا۔ ایجنڈے میں صدارت کے لیے تین مباحثوں میں سے ایک 30ستمبر کو ہوا جبکہ دوسرا اور تیسرا 15 اکتوبر کو فلوریڈا کے شہر میامی میں 22 اکتوبر کو ٹینیسی کے شہر نیش وِل میں اسی طرح نائب صدر مائیک پینس اور سینیٹر کمالا ہیرس کا مقابلہ ہو گا۔ یہ سات اکتوبر کو سالٹ لیک سٹی میں ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے امریکی جمہوریت کا بدنما چہرہ بے نقاب کر دیا، وہ لوگ جو امریکا کو ایک جمہوری ملک ہونے کی مثال دیتے ہیں ان کو اب پوری دنیا سے معافی مانگنی چاہیے کہ وہ اس طرح کے بدبودار نظام کی تعریف میں آسمان زمین ایک کرنے مصروف نظر آتے تھے۔ یہ کہہ کر بات ختم کرنے کی ضرورت نہیں تھی یہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہو رہا ہے حقیقت میں امریکا ایک ایسا ہی ملک ہے جہاں ہمیشہ ظلم و جبر کا بازار گرم رکھا جاتا رہا ہے۔ امریکا ایک ایسا ملک جہاں غلاموں کو مار پیٹ کر قبضہ مافیا نے حکمرانی کے نام پر لوگوں اور ساری دنیا پر ظلم و جبر کی حکومتیں قائم کی ہیں وہاں میٹھے پھلوںکے باغات کا تصور محال ہی نہیں ناممکن ہے۔