حکومت نے پھر فیصلہ کیا ہے کہ 2023ء کے انتخابات میں متنازع آر ٹی ایس استعمال کیا جائے گا۔ حکومت نے الیکشن کمیشن کا اعتراض مسترد کرکے دوبارہ آر ٹی ایس استعمال کرنے پر اصرار کیا۔ اب 2018ء میں آر ٹی ایس کی ناکامی پر تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ تمام ریکارڈ تلف کیا جا چکا ہے دوسرے یہ کہ آر ٹی ایس استعمال کون کرے گا۔ جو کچھ 2018ء کے انتخابات میں ہوا اس کے بعد آر ٹی ایس استعمال کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو پہلے بااختیاربنانا ہوگا اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت آر ٹی ایس کو 2023ء میں استعمال کرنے کا پختہ ارادہ رکھتی ہے تو اپوزیشن کی جماعتوں کو سارے انتخابی عمل الیکشن کمیشن، حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں اور خصوصاً مردم شماری وغیرہ کو ابھی سے درست رکھنے کی مہم چلانی ہوگی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ دونوں طرف ایک غیر سنجیدگی ہے حکومت شفاف انتخابات چاہتی ہے نہ اپوزیشن ووٹوں سیٹنگ چاہتے ہیں اور جب سیٹنگ کی کوشش کی جاتی ہے تو وہی کچھ ہوتا ہے جس کے خلاف سب بول رہے ہیں یعنی عسکری ادارے سیاست میں دخیل ہو جاتے ہیں۔ جدید نظام اختیار کرنا تو اچھی بات ہے لیکن اگر اس کے استعمال سے انتخابات متنازع ہو جائیں تو کیا کہا جاسکتا ہے۔