وفاقی حکومت ایک اور خفیہ ملاقات سامنے لے آئی ہے۔ کچھ دن قبل اپوزیشن کی اے پی سی کے اگلے روز ایک ملاقات کا احوال میڈیا میں آیا تھا جو بڑا دلچسپ تھا اس ملاقات میں جو افشا سے قبل والے ہفتے میں ہوئی تھی ان باتوں پر تبصرہ تھا جو اس خبر کے افشا سے ایک روز قبل ہوئیں۔ اب حکومتی وزرا نے یہ ذمے داری لی ہے کہ وہ نئی ملاقات کی خبر لائیں۔ انکشاف کے مطابق میاں نواز شریف نے نیپال میں مودی سے خفیہ ملاقات کی تھی وہ بطور وزیراعظم مودی سے ملے جس میں دفتر خارجہ شریک نہیں تھا۔ حکومتی وزرا نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمیں لندن کے ایک سفارتخانے میں ہونے والی ملاقاتوں کا بھی علم ہے۔ ہم فوج سے مل کر کام کرسکتے ہیں تو ان کو کیا موت آتی ہے۔ یہاں وزیراعظم کی جگہ وزرا نے فوج کو سیاست میں گھسیٹ لیا۔ ان وزرا نے زبردست نکتہ پیش کیا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو پکڑنے پر عاصم باجوہ نواز شریف کو کھٹکتے ہیں۔ یہ وزرا کہتے ہیں کہ نواز شریف کی تقریروں سے نقصان کا پتا دس ماہ بعد چلے گا۔ میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹے ہوئے تقریباً تین برس ہو چکے۔ ایک ملک کا وزیراعظم دشمن ملک کے وزیراعظم سے خفیہ ملاقات کرتا ہے اور پاکستان کے تمام خفیہ ادارے اس سے لا علم رہے، کسی خبر ایجنسی کو بھی اس کی بھنک نہ پڑی۔ اور اس کی خبر ملی تو پی ٹی آئی کے تین اہم وزرا و مشیروں کو۔ کم ازکم انکشاف کرنے والوں کے انداز سے یہی لگتا ہے کہ وہ پاکستانی ایجنسیوں کی ناکامی کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بہت سے معاملات میں پاکستانی ایجنسیاں سستی کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن بھارت کے معاملے میں یہ ایجنسیاں اپنا کام پورا کرتی ہیں۔ اگر ایسی کوئی ملاقات ہوئی ہے اور یہ وزرا یقین سے کہہ رہے ہیں تو ہوئی ہوگی تو پھر کیا یہ لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اداروں نے دانستہ اس ملاقات کو چھپایا ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی وزرا نے پھر پاکستانی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی، بلکہ یہ کہہ کر گھسیٹ ہی لیا کہ ہم فوج کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تو ان کو کیا موت آن پڑی ہے۔ پی ٹی آئی کے معاون خصوصی شہباز گل نے یہ بھی کہا کہ بھارتی بزنس مین جندال بھی کئی بار ویزے کے بغیر پاکستان آکر نواز شریف سے مل چکا ہے۔ یہ بڑے سنگین الزامات ہیں ان کا ثبوت یقیناً ہمارے وزرا کے پاس ہوگا اور اگر ثبوت ان کے پاس نہیں ہے تو ان کو خبر دینے والوں کے پاس ہوگا۔ میاں نواز شریف کی مودی اور بھارتی تاجروں کے ساتھ دلچسپی اور ہمدردی کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسا سب کچھ ہوا ہوگا۔ لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کاموں پر نظر رکھنے والے اب تک کیوں خاموش رہے۔ اس وقت کیا مصلحت آڑے تھی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ اس کا ایک سبب تو اتوار ہی کے اخبارات میں موجود ہے اور وہ ہے پی ٹی آئی دور کا دوسرا بڑا گندم اسکینڈل۔ یہ وزرا نیپال کی ملاقات کا رونا اب نہ روئیں۔ ملکی خزانے کو میاں نواز شریف نے جتنا نقصان پہنچایا، پی ٹی آئی حکومت اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچا چکی ہے۔ تازہ اسکینڈل کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی زیر صدارت اجلاس میں 2019ء میں پولٹری ایسوسی ایشن کو مارکیٹ ریٹ سے سات ہزار 290 روپے فی ٹن کم ریٹ پر دو لاکھ ٹن گندم فروکت کر دی۔ یہ دو لاکھ ٹن گندم پولٹری ایسوسی ایشن کو کیوں دی گئی اس کی وجہ بھی ہے کہ پولٹری کے کاروبار میں پی ٹی آئی والے بھی موجود ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سابق وزیر خزانہ اس فیصلے سے شریف خاندان کے پولٹری کا بزنس کرنے والوں کو بھی فائدہ پہنچا گئے۔ اب جبکہ گندم کا اسکینڈل تازہ ہے اور سب کو معلوم ہے تو پھر حکمران اسے چھپانے کے لیے کچھ تو کریں گے۔ یہ کون بتائے گا کہ پولٹری ایسوسی ایشن کو اتنی سستی گندم کیوں دی گئی۔ اس سے قبل شکر اور گندم کے اسکینڈل میں بھی حکومتی وزرا اور حلیف ہی ملزم نکلے تھے۔ میاں نواز شریف نے جن اداروں کو چھیڑا ہے وہی ان سے نمٹ رہے ہیں لیکن ہمارے وزرا ن لیگ مخالفت میں ایسے کام نہ کریں جن سے وہ خود فوج کو نقصان پہنچانے کا سبب بن جائیں۔ اسد عمر صاحب سب کو ایمانداری کی پٹی پڑھاتے ہیں لیکن اپنے معاملے میں انہیں کیا ہو جاتا ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ ایسا فیصلہ قومی خزانے کو ڈیڑھ ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچائے گا۔ یہ خبر کوئی خفیہ ملاقات والی خبر نہیں ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ ہے اور مصدقہ ہے پہلے تو اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔