عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں اس دن سے آئے روز قوم پر نئے نئے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ مرغی، انڈوں، بکری، کٹوں سے ہوتے ہوئے اب بھنگ کی کاشت تک جا پہنچے ہیں اور کیا پتا آئندہ کچھ دنوں بعد پوست کی کاشت کے احکامات صادر فرما دیے جائیں۔ لیکن کیا کریں کہ بین الاقوامی پابندیاں خان صاحب کے آڑے آرہی ہیں لیکن خان صاحب تو بر ملا کہتے ہیں کہ ڈرنا نہیں کسی سے اور دوسری جانب لالہ سراج الحق بھی میدان میں آگئے انہوں نے ڈاکٹر فیاض عالم کے تجربات اور ان کے مشوروں سے بھرپر فائدہ اٹھایا اور لوئر دیر میں میدان کے مقام زیتون کے باغ کی کاشت کاری کے لیے باغ کا افتتاح کیا۔ اس باغ میں پندرہ سو کے قریب اعلیٰ نسل کے جنگلی زیتون بڑی تعداد میں موجود ہیں اور یہ قدرت کا بیش بہا انعام ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی اور کروڑں کی تعداد میں ان درختوں کی موجودگی کے باوجود ہم قدرت کے اس انعام سے محروم ہیں اور ہم اب تک ان درختوں کو کارآمد نہیں بنا سکے۔ اربوں روپے کا زرمبادلہ خرچ کر کے ہم بیرون ممالک سے زیتون منگوانے پر مجبور ہیں۔
ڈاکٹر فیاض عالم بڑے جہاندیدہ اور متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔ نعمت اللہ خان کی نظامت کے دور میں ان کے ساتھ تھر میں رفاعی کاموں کے لیے گئے اور یہ بندہ پھر وہی کا ہوگیا۔ تھر جیسے ریگستانی اور بنجر زمین میں پہلے پانی کے سیکڑوں کی تعداد میں کنویں کھدوائے، سولر سسٹم کے ذریعے بجلی پیدا کی گئی اور کنویں سے پانی وہاں کی آبادی کو نہ صرف فراہم کیا گیا بلکہ اس پانی کے ذریعے کھیتی باڑی شروع کی گئی اور تھر کی بنجر زمین پر سبزیوں کے ساتھ ساتھ پھلوں کے باغات بھی آباد کیے گئے۔ برسوں کی محنت اور ڈاکٹر فیاض کے خواب کو عملی تعبیر ملی اور دیوانوں کے خواب کا کہہ کر تمسخر اڑانے والے بھی منہ دیکھتے رہے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ اورنگی ٹائون کا الخدمت اسپتال، پھر کورنگی کا شاندار اور عظیم الشان الخدمت اسپتال، ناظم آباد کے الخدمت اسپتال کی تعمیر وترقی میں فیاض عالم کا ہاتھ تھا اور اس وقت کے الخدمت کراچی کے سیکرٹری حفیظ اللہ صاحب اور امیر کراچی نعمت اللہ خان کی شفقت محبت اور رہنمائی کی وجہ سے فیاض عالم نے ان رفاحی پروجیکٹ کے لیے دن رات کام کیا۔ اندرون ملک اور بیرون ممالک سے مخیر حضرات کے تعاون سے ان اسپتالوں میں ایکسرے مشین، لیبارٹی، لفٹ، میٹرینٹی ہوم کا سامان، آپریشن تھیٹر ودیگر جدید ترین سہولت قائم کی گئیں۔ ملاکنڈ ڈویژن کے پہاڑوں میں کروڑوں کی تعداد میں جنگلی زیتون کے درختوں کی موجودگی پر ڈاکٹر فیاض عالم نے امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق سے بات کی اور انہیں زیتوں کی کاشت کرنے اور زیتون کے باغ آباد کرنے پر آمادہ کیا۔ سراج الحق صاحب نے مقامی نظم سے مشاورت کے بعد زیتون کے باغات لگانے کا فیصلہ کیا اور لوئردیر کے مقام میدان میں زیتون کے باغ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ ملک میں بھنگ کی نہیں زیتون کی ضرورت ہے۔ حکومت بھنگ کے بجائے زیتون کی کاشت پر توجہ دے تو ملک کو اربوں روپے کا زرمبادلہ مل سکتا ہے۔ حکومت ملاکنڈ ڈویژن کو وادی زیتون قرار دے اور علاقے میں نرسریز اور تحقیقی مراکز قائم کیے جائیں ملاکنڈ میں زیتون کے تیل کے کارخانے لگائے جائیں۔
بے شک پاکستان ایک زرعی ملک ہے سراج الحق نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو درست نشان دہی کی ہے کہ وہ زیتون کی کاشت کے لیے فوری اقدامات کرے۔ حکومت جب تک زراعت کے شعبے کی سرپرستی نہیں کرے گی ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔ زراعت ملک معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گندم، گنا، کپاس، چاول، اور باغات کے لیے حکومت کسانوں کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے اور کسانوں کو مختلف مراعات دی جائیں۔ زیتون کی کاشت سے نہ صرف یہ کہ زرمبادلہ کی بچت ہوگی بلکہ مقامی نوجوانوںکو ان کے اپنے علاقوں میں باعزت روزگار بھی ملے گا اور چند سال کے اندر ملک زیتون کے تیل میں خودکفیل بھی ہوجائے گا اور زیتون کا نایاب تیل عام آدمی کی پہنچ میں بھی آسکے گا۔ وزیراعظم صاحب سے بھی درخواست ہے کہ وہ بردباری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ان کے مشیروں کی فوج ظفر موج ان کی مشکلات اور پریشانیوں میں مستقل اضافہ کر رہی ہے۔ مرغی، انڈے، کٹا، بکری کے بعد بھنگ کی کاشت کا اعلان ان کے تمسخر کا باعث بنا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کے مشیروں کے تقرر کے لیے پتا نہیں کون سی صلاحیتوں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ابھی دو چار دن قبل مفتی قوی اور مولانا طاہر اشرفی کو بھی وزیراعظم کا مشیر مقرر کیا گیا تو پوری قوم حیران وپریشان تھی کہ کے الیکٹرک کے سابق سربراہ تابش گوہر کو بھی وزیر اعظم کا معاون خصوصی برائے توانائی بنانے کی خبر آئی۔ یہ خبر سنتے ہی ہر شخص الامان الحفیظ کا ورد کرنے لگا اور اس حکومت سے اب وہ کسی بھی قسم کی توقعات وابستہ کرنا بھی فضول سمجھنے لگاہے۔
تابش گوہر سات سال تک کے الیکٹرک میں بطور سی ای او، ڈائریکٹر اور چیئرمین کے عہدوں پر فائز رہے اور 2015 میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔ تابش گوہر وہی شخصیت ہیں جنہوں نے کراچی کے کھمبوں سے تانبے کا تار بیچ کر سلور کے تار لگائے۔ تیز رفتار میٹر صارفین کے گھروں پر لگائے اور اوور بلنگ، اوور چارجنگ کے ذریعے کراچی کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ تابش گوہر نے کراچی اور کراچی کے شہریوں کے ساتھ جو جو ظلم ڈھائے وہ ناقابل بیان ہیں۔ عمران خان کی جانب سے تابش گوہر کو اپنا معاون خصوصی برائے توانائی مقرر کیے جانے سے ثابت ہوگیا ہے کہ انہیں قوم کا کوئی درد نہیں۔ عوام مہنگائی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ آٹا، چینی، گھی، تیل، چاول، دالیں، سبزیاں، بجلی، گیس سب مہنگا ہوگیا۔ وہ چہرے جو سابقہ حکومت میں براجمان تھے آج بھی اپنی عیاشیوں اور کرپشن میں مگن ہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اپنے نااہل مشیروں کے ایما پر بھنگ کی کا اعلان کر کے خود اپنا تمسخر اڑوا رہے ہیں۔ تابش گوہر، مولانا طاہر اشرفی اور مولانا قوی کی آمد کیا گل کہلائے گی۔ دوسری جانب بھنگ کے بجائے چند سرپھروں کی جانب سے جنگلی زیتون کے چند کروڑ درختوں کی گرافٹنگ ملک کی معیشت کو بدحالی سے نکالنے کا آسان نسخہ ہاتھ آگیا ہے یہ تجرباتی نہیں بلکہ عملی طور پر کامیاب منصوبہ ہے۔
ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ اب مزید غفلت نہ برتے اور بلا تاخیر نوجوانوں کو گرافٹنگ کی تربیت دیں اور اس سلسلے میں خصوصی سینیٹر قائم کیے جائیں۔ جماعت اسلامی کی جانب سے اس اہم کام کی سرپرستی اور عملی دلچسپی اس پروجیکٹ کو کامیاب بنانے میں انتہائی معاون ثابت ہو گی۔ زیتون کی کاشت سے جہاں مالی فوائد حاصل ہوسکے گے۔ وہاں اسلامی کلچر کے فروغ میں بھی معاونت حاصل ہوگی۔ زیتون کی افادیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس کا ذکر اور فضیلت قرآن میں بیان کی گئی ہے اور انسانی صحت کے لیے یہ انتہائی مفید ثابت ہوئی ہے۔