بجا فرمایا

221

عادل اعظم گلزار احمد نے بجا طور پر درست فرمایا ہے کہ سیاست دانوں کو اپنے معاملات پارلیمنٹ میں طے کرنا چاہییں۔ کیونکہ یہ ایک مناسب اور احسن طریقہ ہے۔ اپنے معاملات عدالت میں لا کر اپنا اور عدلیہ کا وقت ضائع نہ کیا کریں۔ عادل اعظم کا مشورہ قابل تحسین ہے مگر سیاست دان عقل کل ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کسی کے مشورے پر عمل کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عدلیہ سیاسی معاملات کی سماعت ہی کیوں کرتی ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بارے میں ایک درخواست پر عدلیہ ایکشن میں کیوں آئی تھی۔ پاناما لیکس کے بارے میں بھارت کے ایک اخبار نے ایک سال قبل ہی ایک تفصیلی مضمون شائع کیا تھا اور دعوے کے ساتھ کہا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پاناما لیکس میں وزارت عظمیٰ سے نکال دیا جائے گا۔ اور پھر جو کچھ ہوا وہ مضمون کے عین مطابق ہوا۔ پاناما لیکس میں سیکڑوں پاکستانیوں کو ملزم قرار دیا گیا تھا مگر ان کے خلاف عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی اخبار کو یہ کیسے علم ہوا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پاناما کی آڑ میں سزا دی جائے گی۔ قابل غور سوال یہ بھی ہے کہ عدلیہ نے ایک سیاسی معاملے کی سماعت کیوں کی؟
عدالتی کارکردگی سے پوری قوم واقف ہے حکومت ہو یا اپوزیشن جس معاملے میں کمیٹی نہ بنا سکے یا کمیشن قائم نہ کر سکے، وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیتی ہے۔ عدالت کے دروازے پر دستک دینے کا مقصد معاملے کو لٹکانے اور مخالف کو رسوا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ہم غور سے ملک کے سیاسی معاملات اور حالات پر سوچیں تو اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں کوئی بھی فرد سیاست پر گفتگو کیے بغیر بے چین رہتا ہے۔ غالباً سیاست اس کی گھٹی میں شامل ہو چکی ہے۔ جب تک وہ سیاسی معاملات پر گفتگو نہ کرے۔ عجیب سی بے چینی اور اضطراب میں مبتلا رہتا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ہماری عدالتیں ایسے ایسے ریمارکس دیتی ہیں جو حزب اختلاف اور حزب اقتدار کو سیاسی طور پر رسوا کرنے انہیں ڈاکو اور چور ثابت کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور بڑے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہم نہیں کہتے عدالتیں کہتی ہیں۔ یوں جج اور جسٹس صاحبان بھی سیاست میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
اس پس منظر میں عادل اعظم کا یہ فرمان کہ سیاست دان اپنے معاملات سیاسی پلیٹ فارم پر حل کریں۔ عدالتوں کا وقت ضائع نہ کیاکریں۔ سننے والوں کو ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیتا ہے۔ عادل اعظم کا یہ فرمان بھی قابل تعریف ہے چھوٹی عدالتیں ایسے فیصلے کیا کریں جنہیں بڑی عدالتوں میں چیلنج نہ کیا سکے۔ کہنے والوں کا یہ کہنا قابل توجہ ہے کہ چیف صاحب نے جوش خطابت میں ایسا کہا ہے۔ ورنہ… وطن عزیز کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ سول کورٹ جس مقدمے کو عدم ثبوت کی وجہ سے خارج کرتی ہے۔ سیشن کورٹ اسے گود لے لیتی ہے۔ اور سیشن کورٹ سول کورٹ کے فیصلے کو برقرار کرتی ہے تو ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ ان مقدمات کو گلے لگا لیتی ہے۔ اس پس منظر میں چھوٹی عدالتیں کیا کر سکتی ہیں؟ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب تک اپیل در اپیل کا ابلیسی چکر ختم نہیں کیا جاتا مقدمات نسل در نسل چلتے رہیں گے۔
ہم بارہا انہی کالموں میں گزارش کر چکے ہیں کہ اپیل کی سماعت کے لیے کوئی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ جو یہ فیصلہ کر سکے کہ مقدمہ اپیل یا سماعت کے قابل ہے یا نہیں مگر ہمارے نظام عدل میں ایسا کوئی میکنزم ہی نہیں۔ جو داد رسی کر سکے یا حقدار کو اس کا حق دلا سکے۔ محترم جسٹس جواد الحسن کا یہ فرمان ہمیں یاد آرہا ہے موصوف نے ایک بار فرمایا تھا کہ دنیا کی کسی بھی عدالت میں ثبوت کے بغیر مقدمے کی سماعت نہیں ہوتی۔ مگر بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری عدالتیں ایسے مقدمات کی سماعت کرتے نہیں تھکتیں۔ جسٹس صاحب نے ایسے مقدمات کو عدالتی جرم اور نا انصافی کی مکروہ ترین شکل قرار دیا تھا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے مقدمہ دائر کرنا ہر شہری کا حق قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ مدعا علیہ بھی تو اس ملک کا شہری ہے وہ بھی بنیادی انسانی حقوق رکھتا ہے۔ مگر عدالتیں اس کے حقوق کو کند چھری سے ذبح کر دیتی ہیں۔ آخر کیوں؟ کیا کسی کے پاس اس کا جواب ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ آئین کے ماہرین اس معاملے میں چپ شاہ کا روزہ کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ کوئی ہے جو انہیں افطار کرا سکے۔