بلین ٹری منصوبہ کہاں گیا؟

284

چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد پشاور چلے گئے جہاں انہوں نے جو کچھ دیکھا اسے بیان بھی کر دیا۔ ان کا تبصرہ ہے کہ پشاور میں ایک درخت بھی نظر نہیں آیا۔ کہاں گیا بلین ٹری منصوبہ؟ صوبائی دارالحکومت میں گرد ہی گرد ہے، سانس نہیں لی جا رہی۔ یہاں کورونا نہیں بھی ہو تو بھی ماسک پہننا ضروری ہے تو پھر دیگر شہروں کا کیا حال ہو گا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری ماحولیات کے بارے میں تبصرہ کیا کہ وہ ایسے سفید کپڑوں میں تشریف لائے ہیں لگتا ہی نہیں کہ کبھی فیلڈ میں گئے ہوں گے۔ چیف جسٹس ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کیس کی سماعت کے لیے پشاور رجسٹری گئے تھے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ پشاور میں کوئی درخت ہی انہیں نظر نہ آئے لیکن بلین ٹری منصوبہ کی مناسبت سے اتنے درخت تو نظر آنے چاہیے تھے کہ بیرون شہر سے آنے والا کوئی بھی فرد درختوں کی موجودگی کو محسوس کر لے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت حکومت کے بلین ٹری منصوبے کے خلاف کوئی فیصلہ دے گی۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ عدالت کے سربراہ یا ججز کوئی ریمارکس دیں اور فیصلہ بھی ان ہی کے مطابق آجائے۔ چیف جسٹس نے پشاور پہنچتے ہی یہ محسوس کر لیا ہے کہ پشاور میں درخت نہیں ہیں اور مٹی ہی مٹی اڑ رہی ہے۔ لیکن یہ مٹی ترقیاتی کاموں کی وجہ سے بھی اڑ سکتی ہے۔ سیکرٹری ماحولیات ائر کنڈیشنڈ گاڑی میں شہر کا دورہ کر لیتے ہیں انہیں گرد چھو کر بھی نہیں گزرتی اسی طرح دوسرے حکام بھی ایسی ہی گاڑیوں میں دورے کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کو کے پی کے میں ماحولیات کا مسئلہ حل کرنا ہے تو انہیں صرف بلین ٹری سونامی کا آپریشن نہیں کرنا ہوگا بلکہ ٹمبر مافیا پر بھی ہاتھ ڈالنا ہوگا اور یہ ٹمبر مافیا عام لوگ نہیں ان کی پہنچ بہت اوپر تک ہوتی ہے۔ تصور سے بھی زیادہ اوپر تک۔ جب تک مافیاز پر ہاتھ نہیں ڈالتے ماحولیات کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔