تازہ ترین خبر کے مطابق محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ اور کوریا کی ٹرانسپورٹ کمپنی ڈائیوو کے درمیان ایک ہزار بسیں چلانے کا معاہدہ ڈیڑھ سال بعد ختم ہو گیا ہے۔ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید اویس قادرشاہ نے بھی معاہدہ منسوخ ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ گزشتہ سال 11مئی کو سندھ حکومت نے کراچی کے عوام کو غیرملکی کمپنی کے ذریعے ایک ہزار بسیں چلانے کا خواب دکھایا تھا۔ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید اویس قادر شاہ نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نجی ٹرانسپورٹ کمپنی ڈائیوو نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی جس کی وجہ سے ہم نے ان سے معاہدہ ختم کردیا ہے۔ حکومت سندھ خود کراچی میں شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی بہترین سروس فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرے گی بہت جلد کراچی کے عوام ٹرانسپورٹ کے حوالے سے خوشخبری سنیں گے۔
پہلے تو کوئی اس بات کی تصدیق کرے کہ کیا صوبائی حکومت اور کوریائی کمپنی ڈائیوو کے درمیان واقعی کوئی معاہدہ بھی ہوا تھا یا نہیں۔ ایک ہزار بسیں کم نہیں ہوا کرتیں۔ کوئی بھی ایسی کمپنی جو ایسی بیش قیمت پروڈکٹ تیار کرتی ہو وہ اتنے بڑے معاہدے کی منسوخی کسی بھی صورت برداشت کر ہی نہیں سکتی اور وہ بھی پورے ڈیڑھ برس بعد۔ ڈیڑھ برس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ معاہدے کے مطابق یقینا اس پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ڈائیوو سے ایک ہزار بسوں کو تیار کرنے کا معاہدہ ہوا ہوگا تو ایڈوانس رقم کی صورت میں کتنے ملین ڈالرز ادا کیے گئے ہوںگے۔ معاہدے ہمیشہ دو طرفہ شرائط پر ہی کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ وزیر موصوف کا کہنا ہے معاہدے کی خلاف ورزی ڈائیوو کی جانب سے ہوئی ہے تو عوام کے علم میں یہ بات لانا ضروری ہے کہ معاہدے کی شرائط کیا تھیں اور خلاف ورزی کی نوعیت کیا تھی۔ اس بات کا علم بھی عوام کو ہونا چاہیے کہ یک طرفہ خلاف ورزی کی صورت میں ایڈوانس جمع کیے گئے ڈالرز مع سود واپس آئے یا وہ بھی ہاتھ سے گئے۔
پاکستان میں اب کوئی حکومت اور ادارہ بھی ایسا نہیں رہ گیا جس پر اندھا اعتماد کیا جا سکے۔ معاہدے کی منسوخی کی اصل وجہ سامنے آنا نہایت ضروری ہے کیونکہ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کرتا۔ اس بات پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ خلاف ورزی مکمل طریقے سے یک طرفہ ہی رہی ہو گی۔ پاکستان، اس کی حکومت، حکومتی وزرا اور لین دین کرنے والوں میں سے کوئی بھی شک و شبہ سے پاک رہا ہی نہیں ہے اور جس معاہدے کو کریدا جاتا ہے اس میں سے ’’کک بیک‘‘ کی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور سامنے آتی ہے۔ خدشہ اسی بات کا ہے کہ بنیادی جھگڑا کچھ ایسی ہی نوعیت کا ہو اس لیے معاملا بہر لحاظ تحقیق طلب ہے اور محتسب اداروں کو اس معاملے کی گہرائی تک اتر کر اصل حقائق عوام کے سامنے لانے چاہئیں۔
وزیر موصوف فرماتے ہیں کہ ’’حکومت سندھ خودکراچی میں شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی بہترین سروس فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرے گی بہت جلد کراچی کے عوام ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ا چھی خوشخبری سنیں گے‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اچھی خبر سنائے جانے کے کتنے برس بعد خبرِ بد میں تبدیل ہو جائے گی؟۔ کیا خوشخبری یہ ہے کہ حکومتِ سندھ خود بسیں تیار کرے گی۔ اگر ایسا ہے تو واقعی یہ آسمانی معجزے سے کم بات نہ ہو گی اور اگر یہ پھر کسی اور غیر ملکی کمپنی سے کوئی اور نیا معاہدہ ہے تو پھر اس کو ایسا ہی عہد و پیمان تصور کر لیا جائے جو جوانی کے جوش میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کر تو لیتے ہیں لیکن اس کے بعد تا عمر پچھتاوے کے سوا ان کے نصیب میں کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔
اہل کراچی دنیا کی وہ بد قسمت کمیونٹی ہے جو نہایت متوول اور امیر ہونے کے باوجود اتنی ضعیف و نحیف بنا دی گئے ہے کہ اس کی ساری دولت پاکستان کے دوسرے مسٹنڈے چھین چھین کر اپنا پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔ ظلم اگر یہیں بس ہو جائے تو قابلِ برداشت بھی ہو سکتا ہے لیکن وہی سب اگر اس نحیف شہر کی دولت کے کھرے کھرے نوٹوں کو دور دور سے لہرا لہرا کر اسے آس امید دلاتے رہیں کہ فکر نہ کرو ہم تمہارے لیے میٹرو چلا دیں گے، کچرا اٹھوادیں گے، سڑکیں اور بازار بنوادیں گے، سرکلر ریلوے بحال کر دیں گے، ٹرانسپورٹ کا نظام ٹھیک کر دیں گے، یہ 200 ارب روپے کا پیکیج تمہارا، یہ 168 ارب بھی تم پر نثار اور 1100 ارب بھی تم پر قربان۔ کراچی کے عوام دور دور سے لہرائے جانے والے نوٹوں، دکھائے جانے والے سبزباغوں اور دلائے جانے والے حسین وعدوں پر آخر کب تک بہلائے جاتے رہیں گے، اہل کراچی کو اس کا فیصلہ از خود کرنا ہے۔
سندھ حکومت کی یہ مہربانی کیا کم ہے کہ اس نے دایاں ہاتھ اٹھا کر ایک ہزار ڈائیوو بسوں کے خواب دکھانے کے بعد بائیں ہاتھ کا زور دار تھپڑ معاہدے کی منسوخی کی صورت میں رسید کرنے کے باوجود بھی آس امید کا سلسلہ نہیں توڑا بلکہ اب از خود کچھ کر گزرنے کا لولی پاپ ہاتھ میں تھماتے ہوئے ایک تازہ خواب ہر اہل کراچی کی پلکوں پر سجا دیا ہے۔ ہم اہل کراچی اس پر بھی امید کا ایک اور بند باندھ لینے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ان سارے وعدے وعید اور معاہدوں کی ٹوٹ پھوٹ پر اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ
ترے وعدوں پر کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے