پرویز مشرف کی وکالت

347

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ ان کا یہ خطاب اپنے محکمے کے بارے میں نہیں، ملکی سیاست اور خاص طور پر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ایک تقریر کے بارے میں تھا جس نے اِن دنوں پورے ملک میں تھرتھلّی مچا رکھی ہے۔ پریس کانفرنس میں ایک صحافی شیخ صاحب یہ پوچھ بیٹھا کہ آپ کی حکومت میاں نواز شریف کو وطن واپس لانا چاہتی ہے کہ وہ سزا یافتہ اور اشتہاری مجرم ہیں اور دھوکا دے کر ملک سے فرار ہوئے ہیں لیکن حکومت جنرل پرویز مشرف کو وطن واپس لانے میں کیوں دلچسپی نہیں رکھتی جب کہ اس کی پوزیشن بھی میاں نواز شریف سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی شیخ صاحب گرمی کھا گئے اور بڑے جوش سے بولے ’’مشرف ایک سچا اور کھرا حکمران تھا، اس نے پانچ پیسے کی کرپشن نہیں کی، نہ وہ سزا یافتہ اور مفرور مجرم ہے‘‘۔ شیخ صاحب جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر اطلاعات اور وزیر ریلوے رہ چکے ہیں بلکہ آخری دنوں میں مشرف حکومت کی ترجمانی کا فریضہ بھی سنبھال لیا تھا۔ اس لیے پرویز مشرف کی وکالت ان کا حق بنتا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے کبھی وہ یہ کام میاں نواز شریف کے حق میں بھی کیا کرتے تھے۔ اب وہ جس حکومت میں شامل ہیں وہ نواز شریف کی دشمن اور پرویز مشرف کی بالواسطہ حامی ہے اس لیے شیخ صاحب بھی نواز شریف پر تبرا بھیج رہے ہیں اور جنرل پرویز مشرف کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عوام کا حافظہ کمزور ہے وہ جو کچھ کہیں گے عوام اسے بلاچوں و چرا تسلیم کرلیں گے۔ یہ خوش فہمی شیخ صاحب کیا سب سیاستدانوں کو ہوتی ہے۔
جہاں تک جنرل پرویز مشرف کا تعلق ہے تو کسے نہیں معلوم کہ ان پر آئین سے بغاوت اور غداری کا مقدمہ ایک خصوصی عدالت میں چلایا گیا تھا جب کہ وہ خود ملک سے فرار ہوگئے تھے۔ انہیں بار بار عدالت میں پیشی کا حکم جاری ہوتا رہا لیکن ان کا وکیل خرابی صحت کا عذر پیش کرکے یہ حکم ٹالتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے بھی بیان ریکارڈ کرانے پر آمادہ نہ ہوئے بالآخر عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ سنادیا جس میں انہیں سزائے موت دی گئی تھی اور فاضل جج نے ان کی لاش کو چوراہے پر لٹکانے کا حکم دیا تھا۔ فیصلہ منظر عام پر آتے ہی کہرام برپا ہوگیا۔ پرویز مشرف سابق آرمی چیف تھے اور فوج اپنے سابق سربراہ کی یہ توہین کیسے برداشت کرسکتی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ شیخ صاحب کا کیا ردعمل تھا؟ وہ تو تھالی کے بینگن ہیں اگر عمران حکومت اس فیصلے کی حمایت کرتی تو وہ بھی اس کی حمایت میں رطب اللسان ہوجاتے لیکن حکومت فوج کی مرضی کے خلاف رائے کیسے دے سکتی تھی۔ اس لیے شیخ صاحب کو بھی پرانی وفاداری نبھانے کا موقع مل گیا۔ لیکن پرویز مشرف کے بارے
میں ان کی ساری باتیں غلط ہیں، وہ سزا یافتہ بھی ہے اور مفرور بھی۔ یہ الگ بات کہ لاہور ہائی کورٹ نے اس کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان واپس آنے کی جرأت نہ کرسکا اور بدستور مفرور ہے۔ جہاں تک پرویز مشرف کے کرپشن نہ کرنے کا معاملہ ہے تو محض مالی بدعنوانی ہی کرپشن نہیں ہوتی، ہر وہ کام جو اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے کیا جائے کرپشن ہی ہوتا ہے۔ پرویز مشرف نے اس معاملے میں جی بھر کے کرپشن کی اور قومی مفاد اور قومی وقار کو بُری طرح ٹھیس پہنچائی۔ جب وہ یہ کام کررہا تھا اور امریکا کی خوشامد میں اسی کے بوٹ چاٹ رہا تھا تو شیخ صاحب اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے اور لوگوں کو یہ باور کرارہے تھے کہ اگر امریکا کے حکم کی خلاف ورزی کی تو وہ پاکستان کا ’’تورا بورا‘‘ بنادے گا۔ امریکا کے حکم پر لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا تو شیخ رشید نے آنکھ بند کرکے اس کی بھی حمایت کی۔ اس کی سزا انہیں یہ ملی کہ عوام نے 2013ء کے انتخابات میں بڑی حقارت سے انہیں مسترد کردیا۔
شیخ رشید کے مدوح جنرل پرویز مشرف نے قوم کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چند ڈالروں کے عوض امریکا کے حوالے کرکے قومی غیرت کا جو جنازہ نکالا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے بے شمار لوگ امریکا کو ڈالر کے عوض فروخت کردیے اور اپنی کتاب میں برملا اس کا اعتراف کیا ۔ اس نے امریکا کی شہہ پر کشمیریوں سے غداری کی۔ جہاد کشمیر پر پابندی لگائی۔ تمام جہادی تنظیموں کو خلاف قانون قرار دیا اور بھارت کو کنٹرول لائن پر خاردار باڑھ لگانے کی سہولت فراہم کی پھر اس نے مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کے لیے اس کا ’’آئوٹ آف بکس‘‘ حل پیش کیا۔ جس کا مقصد کشمیریوں کو حق خودارادیت سے محروم کرنا تھا۔ یہ ساری باتیں مالی کرپشن سے بھی زیادہ سنگین تھیں لیکن یہ نہ سمجھیے کہ اس نے مالی کرپشن نہیں کی۔ اس کی کرپشن بھی شریفوں اور زرداریوں سے کم نہ تھی۔ اس کا اندازہ آپ یوں کرسکتے ہیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف بنتے وقت اس نے جو اثاثے ڈکلیئر کیے تھے اس پر صرف دو پلاٹ اور اکائونٹس میں چند ہزار روپے تھے لیکن جب ریٹائر ہوا تو اس کے اثاثے پاکستان کے علاوہ دبئی اور لندن میں پھیلے ہوئے تھے جن کی مالیت اربوں میں تھی۔ اس کے علاوہ اس کے بینک اکائونٹس میں بھی کروڑوں ڈالر موجود تھے۔ کیا یہ سب کچھ اس نے اپنی جائز کمائی سے حاصل کیا تھا؟
شیخ رشید کو آج پرویز مشرف فرشتہ نظر آرہا ہے لیکن اگر کل پرویز مشرف مخالف حکومت آگئی یا فوجی قیادت نے پرویز مشرف کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بدل لیا تو پھر شیخ رشید کیا کریں گے۔ ہمارے دوستوں کا خیال ہے کہ شیخ صاحب بھی فوراً یوٹرن لے لیں گے۔ آج وہ جس منہ سے پرویز مشرف پر پھول برسا رہے ہیں کل وہ اسی منہ سے اس پر انگارے برسانے لگیں گے اور وہ اپنے اس مطالبے میں سرفہرست ہوں گے کہ پرویز مشرف کو وطن واپس لایا جائے۔