فاروق حیدر پرغداری کا مقدمہ‘ آزادکشمیر اسمبلی میں مذمتی قراردادیں منظور

172

مظفرآباد(صباح نیوز) نواز شریف اور وزیر اعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر خان پرغداری کے مقدمے کے خلاف آزاد کشمیر اسمبلی میں مذمتی قراردادیں منظور ۔منگل کے روز قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں 3 وزرا نے لاہور میں لیگی قیادت خصوصاً وزیر اعظم آزاد کشمیر کیخلاف غداری اور بغاوت کے مقدمے کیخلاف الگ الگ قراردادیں پیش کیں۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کا یہ اجلاس وزیر اعظم آزاد ریاست جموںو کشمیر راجا فاروق حیدر خان،پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت، 2 سابق وزرائے اعظم،سابق وفاقی وزرا اور ریٹائرڈ سینئر جرنیلوں کے خلاف لاہور کے ایک تھانے میں درج کیے جانے والے غداری اور بغاوت کے الزام پر قائم مقدمے کی بھر پور مذمت کرتا ہے۔ اس ایوان کی نظر میں یہ مقدمہ ریاست پاکستان اور کشمیریوںکے لازوال رشتے کو گزند پہنچانے کی مذموم سازش ہے۔اس مقدمے کی وجہ سے جہاں اندرون ملک آئین کے پابند اور جمہوریت پسند عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے،وہیں آزاد کشمیر،مقبوضہ جموں وکشمیر اور بیرون ملک لاکھوں کشمیریوں میں اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس مقدمے سے مسئلہ کشمیرپر پاکستان کے اصولی موقف کو شدید نقصان پہنچا ہے۔یہ مقدمہ پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے جو عاقبت نا اندیش عناصر کے ذہنوں کی اختراع ہے۔ اس مضحکہ خیز مقدمہ سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پہ جگ ہسائی ہوئی ہے۔قرارداد پر حکومتی اراکین نے بھی اظہار خیال کیا جبکہ غداری مقدمہ میں وزیراعظم آزادکشمیر کا نام شامل کرنے پر پیپلز پارٹی،مسلم کانفرنس،جماعت اسلامی جے کے پی پی سمیت پی ٹی آئی نے بھی مذمت کی ۔اسپیکر نے تینوں قراردادوں کو یکجا کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیدی اجلاس آج 10 دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔قبل ازیںکنونیئر کل جماعتی کشمیر رابطہ کونسل و چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی عبدالرشید ترابی نے قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان تاریخی طور پر ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے ،پوری ریاست کی متنازع حیثیت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور حکومت پاکستان کے مؤقف کی رو سے مسلمہ ہے ،اس لیے وہاں کے اسٹیٹس کے حوالے سے فیصلہ کرتے وقت،تاریخی حقائق کو پیش نظر رکھا جائے اور تحریک آزادی کشمیر کے اس انتہائی نازک مرحلے پر کوئی ایسی بے تدبیری نہ کی جائے جس کے نتیجے میں تقسیم ریاست کے بھارتی مؤقف کو تقویت ملے یا بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور کشمیریوں کا تاریخی موقف مجروح ہو ، ایسے فیصلے کرتے وقت قائدین حریت کانفرنس،کشمیری قیادت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔