کرغیزستان میں سیاسی بحران شدید ہوتا جارہا ہے۔ وزیراعظم کبت بیک بوروناف، کئی وزرا اور اسپیکر پارلیمان داستان جمعہ بیکوف مستعفی ہوگئے ہیں۔ حزب اختلاف نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے پارلیمان سمیت اہم سرکاری عمارتوں پر دھاوا بول دیا۔ الیکشن کمیشن نے اس شدید عوامی ردعمل کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے نتائج کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کا اعلان کیا ہے، جب کہ صدر سورن بائی جین بیکوف نے بھی مخالفین سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی ہے، لیکن اب حزب اختلاف جھکنے کو تیار نہیں۔ حزب اختلاف کی کئی سیاسی جماعتوں نے قومی رابطہ کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے پارلیمان کی تحلیل اور حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا ہے، جب کہ ایک اور دھڑے نے اپنی رابطہ کمیٹی قائم کرلی ہے۔ یوں اس تنازع کے 3 فریق ہوگئے ہیں، جس کے باعث صورت حال مزید گمبھیر ہوگئی ہے۔ تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہو پارہا کہ یہ سب کچھ ایک نیا عوامی انقلاب ہے یا کوئی بیرونی سازش۔ کرغیزستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اقتصادی اور سماجی صورت حال میں تیزی سے انحطاط آیا ہے، اس لیے کچھ بعید نہیں کہ عوام انتخابات میں صدر جین بیکوف کی فتح پر احتجاجاً سڑکوں پر آگئے ہوں، تاہم اس بحران میں بیرونی ہاتھ کی موجودگی کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ حالیہ برسوں میں کرغیزستان کی روس سے قربت میں اضافہ ہوا ہے اور ممکن ہے کہ کچھ ممالک کو یہ بات پسند نہ آئی ہو۔