قیادت کا فقدان

451

وفاقی حکومت حقیقی معنوں میں اُلجھن کا شکار ہوگئی ہے۔ ملک میں مہنگائی کنٹرول میں نہیں آرہی۔ بھارت کے قدم بڑھتے جارہے ہیں اور حکومت صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہے۔ وفاقی کابینہ نے ایک یوٹرن لیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں جو بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی تھیں انہیں نیلام کرنے کے بجائے استعمال میں لایا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے رہنما وزیراعظم عمران خان کو ان کے وہ بیانات اور دعوے یاد دلانے کی ضرورت تو نہیں جن میں وہ کہا کرتے تھے کہ یہ گاڑیاں نیلام کردوں گا، ایوان صدر اور وزیراعظم کو یونیورسٹی بنادوں گا۔ انہوں نے ایوان وزیراعظم اور صدر سے گاڑیاں نیلام کرنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن جس وقت وہ یہ یوٹرن لے رہے تھے اس وقت ان کی کابینہ کے اپنے افراد بھی مہنگائی کے حوالے سے بول پڑے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں مہنگائی کا جن بے قابو ہو کر اپنے پنجے گاڑ رہا ہے اور بے روزگاری، معاشی تنگی اور عالمی وبا کا خوف الگ سوار ہو، حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہی نہیں چاہیے تھے۔ لیکن یہ وزرا مہنگائی کو کیا جانیں۔ انہیں تو اس کا اندازہ نہیں کہ دو سو روپے کلو ٹماٹر ملنے کا کیا مطلب ہے۔ آلو پیاز بھی ہوا میں اُڑ رہے ہیں۔ گندم 2400 روپے من مل رہی ہے۔ ملک کے گوداموں میں گندم پڑی ہے اور روس سے ایک لاکھ 80 ہزار ٹن گندم درآمد کی جارہی ہے۔ ان حالات میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس میں کھڑی بلٹ پروف گاڑیاں استعمال میں لانے کا فیصلہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم نے مہنگائی کا زبردست نوٹس لیا ہے اور چینی ملوں میں اسٹاک کو چیک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسے وفاقی کابینہ نے کریک ڈائون کا نام دیا ہے۔ کابینہ اجلاس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن چور ہے باغی نہیں، مقدمے کا اندراج غلط ہے، جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا کہ ممکن ہے ایف آئی آر نواز شریف کے کارکن نے درج کرائی ہو۔ اس قدر سنجیدہ اور سنگین موضوع پر وفاقی وزیر اطلاعات مزاح بکھیرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومت نے جو انداز اختیار کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کوئی اور ہی چلا رہا ہے۔ کابینہ کے اجلاس کے موضوعات اور ہدایات و فیصلے صرف ہوائی تیر چلانے کے مترادف ہیں۔ جو کام حکومت کی پہنچ میں ہیں ان پر وہ کوئی کام نہیں کررہی جب کہ کے الیکٹرک کے سابق سی ای او تابش گوہر کو وزیراعظم کا مشیر مقرر کردیا گیا ہے۔ یہ تو اہل کراچی کے لیے پی ٹی آئی کا کھلا پیغام ہے کہ ہمیں تمہاری کوئی فکر نہیں، ایسے ہی لوگوں کو ہم اہم ذمے داریاں دیں گے جو عوام کا خون چوسنے کا تجربہ رکھتے ہوں۔ ایک عجیب کیفیت ہے مقدمے، اسکینڈل، بیانیے، الزامات اور شور شرابا اور نتیجہ صفر۔ اب عوام کیا کریں انہیں کوئی تو متبادل چاہیے اور اس متبادل کی تیاری بھی سلیکٹرز ہی کررہے ہیں یعنی حقیقی عوامی قیادت کے راستے بند کیے جارہے ہیں۔ جو لوگ یہ کرتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ عوام بھیڑ بکریاں ہیں وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ان کی مصنوعی قیادت آگے لا کر ان سے نمائندگی کا حق بھی چھین لیا جائے۔ لیکن وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ جب یہی عوام بپھر جاتے ہیں تو ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اصل معاملہ یہی ہے کہ 1977ء کے بعد سے پاکستانی قوم کو اس قدر تقسیم کردیا گیا ہے کہ وہ کسی ایک نکتے پر متفق ہو کر ایک قیادت کے پیچھے چلنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ کام بھی کرنے والوں نے کیا ہے کہ عوام میں گھروں سے نکلنے کی سکت ہی ختم کردی جائے۔ 1977ء میں طلبہ، اساتذہ، وکلا اور دینی مدارس ایک ساتھ نکلے، سیاسی قیادت ایک نکتے پر متفق ہوئی لیکن رفتہ رفتہ حکمرانوں نے مہنگائی، بیروزگاری، ایم کیو ایم جیسی چیزیں ایجاد کیں اور قوم میں سے احتجاج اور تحریکوں کا حصہ بننے کی خصوصیت نکال ڈالی۔ اب تحریک کے لیے تمام اسباب اور وجوہات موجود ہیں لیکن قیادت نہیں ہے۔