فرانس: فرعون کی لاش کا استقبال اور اسلام دشمنی؟

1278

مسلمانوں کے لیے ظلم، جبر مذہبی آزادی سے محروم ملک فرانس کے صدر امانویل ماکروں نے 2اکتوبر کو ایک مرتبہ پھرکہا ہے کہ مسلم انتہا پسندی قبول نہیں، حجاب پر مکمل پابندی اور مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ ایک طویل عرصے سے فرانس مسلمانوں کے لیے بھارت اور اسرائیل بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک پورے یورپ میں سب سے زیادہ اسلام اور مسلمان دشمن ملک بن چکا ہے۔
پیرس میں ماکروں نے اسلام کو بطور معاشرت اپنانے والوں کو انتہا پسند قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانس سیکولر ملک ہے یہاں مسلم انتہا پسندوں کو مذہب کا سہارا لے کر علٰیحدہ متوازی معاشرہ بنانے کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی کیوں کہ یہ فرانس کی اقدار سے متصادم ہوگا۔ فرانسیسی صدر کے مطابق مسلم اکثریتی محلوں میں مذہبی آزادی کی آڑ میں انتہاپسندی، نفرت اور تشدد کا پرچار کرنے والے فرانس کے لیے خطرہ ہیں۔ صدر ِ فرانس امانویل ماکروںکو معلوم ہو گا کہ یہ وہی سیکولر فرانس ہے جہاں! 1982ء میں فرعون کی ممی خراب ہونے لگی تو اس وقت کی مصری حکومت نے فرانس کی حکومت کو درخواست کی کہ فرعون کی ممی کو خراب ہونے سے بچایا جائے نیز جدید سائنسی ذرائع سے اس کی موت کی وجہ بھی معلوم کرانے کے لیے مصری اور فرانسیسی حکومت نے مل کر ممی کو فرانس لے جانے کا انتظام کیا۔ جب فرعون کی لاش کو فرانس پہنچایا گیا تو ائرپورٹ پر اس دور کے فرانسیسی صدر متراں حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں، تمام وزراء اور فوج کے سربراہ کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔ فرعون کی لاش کا استقبال کسی عظیم زندہ بادشاہ کی طرح کیا گیا۔ فوجی دستوں نے سلامی دی۔ لیکن اب اسلام کے بارے میں فرانس کی کچھ اس طرح کی باتیں سرکاری اور حکومتی سر پرستی میں سامنے آرہی ہیںکہ:
فرانس کے صدر کا کہنا ہے کہ اسلام فرانس کی اقدار سے متصادم ہے۔ فرانسیسی صدر کے مطابق فرانس کے گلی محلوں میں انتہاپسندی روکنے کے لیے حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے۔ اس قانون کے ذریعے مقامی سطح پر مذہبی اور سماجی تنظیموں کے مالی معاملات کی کڑی نگرانی کی جائے گی، انتہا پسندی پھیلانے والے نجی مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی اور مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر قدغن لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ نئے اقدامات کے تحت فرانس میں پبلک سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین پر حجاب پہننے پر پابندی کو اب نجی شعبے میں بھی لاگو کیا جائے گا۔ اگلے سال سے تمام بچوں کے لیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، اسکول جانا لازمی ہوگا جب کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ شہری پیدا کرنا ہے نہ کہ مذہبی جذبے سے سرشار پیروکار۔ فرانسیسی صدر نے اپنے ایک خطاب میں دعویٰ کیا کہ اسلام اس وقت دنیا میں بحران سے دوچار ہے تاہم فرانسیسی جمہوریہ میں بیرونی مداخلت سے پاک‘ روشن خیال اسلام‘ کی بہت گنجائش موجود ہے۔ واضح رہے کہ فرانس میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے، جہاں لگ بھگ 60 لاکھ مسلمان بستے ہیں، دنیا بھر کے بیش تر ممالک کے فرانس میں بھی مسلم خاندان پرامن اور اعتدال پسند ہیں۔ حکومت کے مجوزہ قانون پر وہاں مقیم مسلم برادری اور رہنماؤں میں خدشات ہیں کہ اس سے اسلامو فوبیا اور ان کے خلاف تعصب کو مزید ہوا ملے گی۔
فرانس کی سر زمین مسلمانوں پر تنگ کردی گئی ہے فرانسیسی صدرکا مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا منصوبہ ہے انہیں روکنے کے لیے سخت قوانین وضع کیے جانے کو فرانسیسی مسلمانوں نے کریک ڈاؤن قرار دیا۔ نیا قانون پاس ہونے کی صورت میں مسلمان خواتین گھر سے باہر حجاب نہیں لے سکیں گی اسلام دشمنی کو چھپانے کے لیے ان قوانین میں دیگر مذہبی عقائد پر بھی قدغن لگ جائے گی۔
فرانس میں یہودی ازم کے لیے بڑی گنجائش ہے اسی لیے یہاں یہودی مصنف اسلام کے خلاف نہ صرف کتاب لکھ سکتے ہیں بلکہ یہاں اسلام کے خلاف ’’پی ایچ ڈی‘‘ بھی کرائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس فرانس میں یہودیت کے خلاف لکھنے اور بولنے اور کچھ بھی چھاپنے پر مکمل پابندی ہے۔ 2015ء میں فرانس میں ایک متنازع کتاب شائع ہوئی جس میں فرانس کو ایک اسلامی مملکت کے طور پر دکھایا گیا ہے جہاں یونیورسٹیوں کو قرآن پڑھانے پر مجبور کیا جا چکا ہے، خواتین کے لیے حجاب لینا ضروری ہو چکا ہے اور ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا قانونی حق بن گیا ہے۔ کتاب کے مطابق فرانسیسی معاشرہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک رہا ہے اور آخر 2022 میں ایک مسلمان جماعت کا رہنما ملک کی صدارت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اس تصوراتی کتاب میں فرانس کے عہدِ حاضر کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے یہودی ادیب مشل ہولیبیک کی یہ کتاب ادب کے لبادے میں محض لوگوں کو اسلام سے ڈرانے کی کوشش ہے؟ اس کتاب کو دائیں بازو کے سیاست دان اپنے اسلام مخالف ایجنڈے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مصنف کے بقول فرانسیسی مسلمانوں کا پس منظر ایسا ہے کہ نہ وہ بائیں سے خوش ہیں نہ دائیں سے۔ اسلام دشمن اور یہودی سوچ کے مالک فرانسیسی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ مصنف نے کچھ غلط نہیں لکھا اس نے معاشرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور اس نے کڑوا سچ بغیر کسی لگی لپٹی کے لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔ مشل ہولیبیک کی کتاب پر اتنی زیادہ تکرار و بحث کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے فرانس میں بھارت کی طر ح اسلام اور مسلمانوں کی شناخت پر قومی سطح پر بحث ہو رہی ہے۔ فرانسیسی صدر امانویل ماکروں ان دنوں یورپ کے لیڈر بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ناٹوکو مردہ گھوڑا قرار دیتے ہوئے ترکی کے خلاف یونان کی حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن ان کو یاد رکھنا ہو گا کہ: سورہ یونس کی آیات 90 تا 92 میں۔ فرعون کا خدائی کا دعویٰ، اس کا پانی میں ڈوب کر مرنا اور پھر پانی سے نکال کر اس کی لاش کا حنوط ہو جانا اور پھر دوبارہ لاش کا ملنا اور پھر اس کی لاش کو جدید سائنسی دور میں دوبارہ محفوظ کیا جانا۔ سب کا اشارہ ایک تھا اور یہ بات آج بھی واضح ہو گئی اللہ نے فرمایا کہ: ’’تجھے بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دوں گا‘‘۔ فرعون کی لاش ایسے محفوظ کرکے دنیا کے سامنے لا کر رکھ دی گئی ہے کہ انٹرنیٹ کی ایک کلک پر، رسائل و جرائد پر، ٹی وی چینلز پر اور عجائب گھر میں اربوں انسانوں کی آنکھوں کے سامنے کریہہ اور پچکی قابل ترس حالت میں موجود ہے۔ عبرت اور سوچنے کے لیے ہے کہ: ’’عبادت کے لائق اور ہمیشہ رہنے والا وہی ہے جو سب کا خالق اور رازق ہے‘‘۔ اللہ اس حشر میں صرف فرعون کو نہیں فرانسیسی صدر امانویل ماکروں کو بھی شامل کرسکتا ہے۔