پاکستان کو پاکستان تو بنا دیں…

266

وفاقی حکومت عوام کو روزانہ نیا تحفہ اور حکمران نیا بھاشن دیتے ہیں۔ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی طاقت جیسا بنانا چاہتا ہوں۔ ہماری حکومت کا مقصد خود انحصار پاکستان ہے نوجوانوں کو ہنر سکھایا جائے گا۔ یہ خبر سن کر پھر پاکستانی فخر سے اور خوشی سے پھولا نہیں سماتا لیکن دوسری طرف بلکہ اسی دن کے اخبار میں ایسی خبریں ملتی ہیں جن کو پڑھ کر لوگ خوفزدہ ہونے لگتے ہیں۔ جن لوگوں میں کچھ سکت باقی ہے وہ ملک سے بھاگنے کے راستے تلاش کرنے لگتے ہیں جن میں یہ سکت نہیں وہ کوئی دوسرا ذریعہ معاش بھی تلاش کرتے ہیں اور جن کے پاس کوئی راستہ نہیں وہ غیر قانونی ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا اس کو آسان راستہ سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم کا اعلان پاکستان کو عالمی طاقت بنانے کا ہے اور حکومت نے گیس مزید مہنگی کر دی ہے۔ پاکستانی عوام پر 69 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ اگر آبادی کی بنیاد پر اعداد و شمار کا گورکھ دھندا چلایا جائے تو یہ صرف 3 روپے کچھ پیسے فی کس بنے گا۔ لیکن ایسا ہے نہیں گیس کی قیمت کے ساتھ ہی گیس کے استعمال والی ہر چیز متاثر ہوگی۔ جو صنعتیں گیس سے چلتی ہیں ان کی لاگت میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ان کی مصنوعات مہنگی ہوں گی سب سے زیادہ اثر خوراک پر پڑے گا۔ بیکریوں، تندوروں، ہوٹلوں وغیرہ میں گیس ہی استعمال ہوتی ہے۔ سی این جی سیکٹر بھی متاثر ہوگا، حکومت نے گندم پہلے ہی مہنگی کر دی ہے اور ہر روز خدشہ ہوتا ہے کہ کوئی اور چیز مہنگی ہو جائے گی۔ چنانچہ حکومت نے بجلی بھی مزید 83 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی ہے جس سے 12 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ توانائی کا متبادل ذریعہ ایل پی جی ہے اس کی قیمت بھی 5 روپے فی کلو بڑھ گئی ہے۔ گوشت، سبزی، دالیں، چاول، چینی وغیرہ بھی روز بروز مہنگی اور عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو رہی ہیں، گیس مہنگی ہونے اور گندم اور آٹا مہنگا ہونے کے نتیجے میں روٹی پر براہ راست اثر پڑے گا۔ پاکستان ایٹمی قوت ہو، عالمی قوت ہو یا ایشیائی اس کے ہر باشندے کو دن میں کم از کم دو مرتبہ تو کھانا چاہیے۔ روٹی جیسی بنیادی ضرورت کی شے ایک زرعی ملک میں ناپید نہیں تو مشکل سے ضرور دستیاب ہے۔ ایسا صرف حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے سبب ہو رہا ہے۔ حکمران اپنی پریس کانفرنسوں میں ملک میں سب اچھا ہے کا نعرہ لگاتے ہیں اور خرابیوں کا ذمے دار گزشتہ حکومت کو قرار دیتے ہیں۔ بات صرف گیس کی قیمتوں میں اضافے کی نہیں ہے بلکہ حکومت ہر جانب سے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے۔ سرکار کی اپنی رپورٹیں تو سب اچھا بتا رہی ہیں لیکن ان کی اپنی رپورٹس میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ رواں سال کے جولائی اگست میں توانائی کے شعبے میں حکومت کے واجبات میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔ صرف دو ماہ میں چار اعشاریہ پانچ فیصد اضافے کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے برس توانائی کے شعبے میں بحران آئے گا۔ حکومت کے پاس بحران کا ایک ہی حل ہے بجلی، پیٹرول، ڈیزل، گیس وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کرکے وصولیابی کی رقم کو مطلوبہ ہدف تک پہنچا دیا جائے لیکن اس کا اثر بھی عوام پر پڑتا ہے۔ توانائی کے شعبے کو واجب الادا رقوم میں وفاقی حکومت کے اداروں کا 21 ارب روپے کا حصہ ہے۔ آزاد کشمیر حکومت پر واجب الادا رقم جون تک ایک ارب 45 کروڑ روپے تھی جو اب ایک ارب 52 کروڑ روپے ہوگئی ہے۔ ان واجبات کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف معاصر اخبار بزنس ریکارڈر نے کیا ہے کہ کے الیکٹرک کے واجبات 169 ارب روپے سے بڑھ کر 180 ارب روپے ہوگئے ہیں یعنی صرف دو ماہ میں 11 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ اس صورتحال کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ حکومت کے علم میں نہیں ہے بلکہ حکومت کے علم میں سب کچھ ہے۔ 29 ستمبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد قاسم نے پوری تفصیل بیان کرنے کے بعد یہ بتا دیا تھا کہ اب حکومت کو 2023ء میں اس گردشی قرضے (سرکلر ڈیٹ) کو ختم کرنے کے لیے بجلی کے نرخوں میں چھ اعشایہ صفر چھ فیصد اضافہ کرنا ہوگا۔ یہ وہی شہزاد قاسم ہیں جنہیں حال ہی میں ان کے منصب سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن سے عام آدمی کو سروکار بھی نہیں ہوتا لیکن یہی چیزیں مستقبل میں اثرات ڈالتی ہیں۔ پاکستانی حکومت اب تک یہ نہیں بتا سکی کہ ایک زرعی ملک میں بار بار گندم، چینی اور غذائی اجناس کا بحران کیوں ہوتا ہے اور فوری طور پر درآمد کی منظوری اور درآمد کیوں ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور ایسا ہی ہے ان کو پوچھے گا کون۔ گندم چور دائین طرف تو چینی چور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔ ٹیکس چور چاروں طرف ہیں۔ پارلیمنٹ میں کون سوال اٹھائے گا۔ اب قانون کے ذریعے یہ پابندی لگائی جا رہی ہے کہ ان کو لانے والوں کو برا نہ کہا جائے۔ تو کم ازکم عوام ہی کو برا کہا جانا چاہیے کہ جو لوگ اس حکومت کو لائے تھے وہی تمام خرابیوں کے ذمے دار ہیں۔ عمران خان صاحب کے لیے مشورہ ہے کہ پاکستان کو صرف پاکستان بنا دیں، عالمی طاقت جیسا بنانے کے چکر میں نہ پڑیں۔ کوئی ایشیائی ٹائیگر بناتا ہے کوئی عالمی طاقت پاکستان کو پاکستان بنانا اصل کام ہے۔