طبل جنگ کی دھمک

321

مولانا فضل الرحمن پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر منتخب کر لیے گئے۔ اپوزیشن اتحاد کی تشکیل کے ساتھ ہی حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے شہباز شریف کو گرفتار کرلیا۔ مریم نواز اور دیگر رہنمائوں کی گرفتاری بھی متوقع ہے۔ ان گرفتاریوں کے ساتھ حکومتی حلقوں کی طرف سے ابہام اور بوکھلاہٹ کے مظاہرے بھی سامنے آنا شروع ہوگئے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر سمیت مسلم لیگ ن کے 43رہنمائوں کیخلاف غداری کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ تین ریٹائرڈ فوجی جرنیل بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ فواد چودھری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اس مقدمے کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے حالانکہ اس سے قبل عمران خان ہی کے ایک وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان نے ارادہ ظاہر کیا تھا کہ عوامی دبائو کے تحت نواز شریف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے جس ’’دیدہ ور‘‘ بدر رشید نے یہ مقدمہ درج کرایا ہے اس پر خود اقدام قتل اور ناجائز اسلحہ کے مقدمات درج ہیں۔ پارسائی کے زعم میں ڈوبی تحریک انصاف کو نواز شریف اور اپوزیشن لیڈروں پر غداری کے مقدمات قائم کرنے کا مشورہ نجانے کس افلاطون نے دیا۔ پاکستان میں سیاسی رہنمائوں کو غدار کہنے سے زیادہ لغو بات کوئی ممکن نہیں۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر آج تک کون ہے جو اس بیہودہ گوئی سے بچا رہا ہو۔ تحریک انصاف کے قائدین جس تواتر سے لوگوں کو غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کررہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے تو آدھا پاکستان مودی کا ایجنٹ لگتا ہے۔ کیا خوب ہے کہ وہ جنہوں نے ابھے نندن کو چھوڑا، سلامتی کونسل میں بھارت کو ووٹ دیا، مودی کے الیکشن جیتنے کی تمنا کی وہ محب وطن ہیں۔ عمران خان اوسط سے بھی کم صلاحیت کے لیڈر ثابت ہوئے ہیں۔ دو ڈھائی برس کے اقتدار نے انہیں بونا بنادیا ہے۔ کس قد کاٹھ سے انہوں نے سیاست میں رنگ جمایا تھا اب وہ کہاں کھڑے ہیں۔ منفی خیالات اور انتقام کے بھاری پتھروں نے انہیں بہت ہلکا کردیا ہے۔ ان احمقانہ اقدامات پر اگر کوئی شخص قہقہے لگارہا ہوگا تو وہ یقینا نواز شریف ہوں گے۔
موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نواز شریف کو حاجی ثنا اللہ بنادیا ہے۔ جب سے عمران خان سیاست میں چمکے ہیں وہ زور وشور سے ایک ہی بات کی تکرار کرتے تھے کہ نواز شریف کرپٹ ہیں۔ بات دل کو لگتی بھی تھی کیونکہ شریف فیملی کے محلات اور شاہانہ طرز زندگی دیکھ کر دل سے یہی صدا آتی تھی کہ یہ کرپشن کے مظاہر ہیں۔ لیکن گزشتہ دوبرس سے جب سے عمران خان برسر اقتدار آئے ہیں ان کی حکومت کی نااہلی، عدم کارکردگی، عوام کے مسائل سے بے توجہی، مہنگائی میں بے حدوحساب اضافہ، بے روزگاری کی شدت کے آگے کرپشن کی کہانیاں کمزور پڑتی چلی گئیں، اس پر طرہ افزوں نیب کے کمزور مقدمات جن سے انتقام کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ کرپشن کے الزامات عدالتوں میں ثابت ہوتے، سزائیں ہوتیں، جائداد ضبط کی جاتیں پھر تو لگتا کہ ہاں کچھ ہے لیکن محض الزامات کی تکرار، شہزاد اکبر اور فیاض چوہان جیسے لوگوں کے منہ سے جو سچ بھی بولیں تو جھوٹ لگتا ہے، اس پر شبلی فراز، نجانے احمد فراز نے پاکستانیوں سے کس بات کا بدلہ لیا ہے۔ اس حکومت کے ذہنی افلاس کا اندازہ لگائیے جس کے نزدیک پاکستان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ مریم نواز کے 55لاکھ فالوورز میں سے 50لاکھ کا مریم نواز کے ٹوئٹس لائک نہ کرنا ہو۔ احتساب، نواز شریف اور زرداری کی کرپشن اور این آر او ہی بیزار کرنے کے لیے کیا کم تھے کہ اب اس میں غداری کے مقدمات کا بھی تڑکا لگادیا ہے۔
نواز شریف کی تقریر نے کمال یہ کیا کہ عمران خان کو ثانوی اور خود نوازشریف کی لوٹ مار اور کرپشن کو فروعی اور غیر اہم بات بنادیا۔ اس میں نواز شریف کی تقریر سے زیادہ عمران خان کے ماضی کے کرشماتی دعووں کے مقابل ٹائیں ٹائیں فش کارکردگی اور ڈھٹائی پر مبنی یوٹرنز کا بھی بڑا ہاتھ ہے، ورنہ کون ہے جو نواز شریف اور زرداری کو مسٹر کلین سمجھتا ہو؟ اس وقت جب کہ مولانا فضل الرحمن کے سوا تمام سیاست دان کنارے لگے ہوئے ہیں، ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ نے ہتھیار ڈال دیے ہیں نواز شریف کا ’’ریاست سے اوپر ریاست‘‘ کا دعویٰ وہ نعرہ مستانہ ثابت ہوا جو سب کے دلوں کی آواز تھا لیکن زیر لب بھی کسی کو کہنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ تمام سیاست دان بشمول عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کسی وزیراعظم کو اپنے طور پر کام ہی نہ کرنے دیا جائے۔ ان کے کاموں میں مسلسل مداخلت کی جاتی رہے۔ انہیں اپنا ماتحت سمجھا جائے۔ ایک متوازی بلکہ ریاست کے اوپر ریاست تشکیل دے دی جائے۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے احتجاجی پروگرام کا اعلان کردیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت جب سے آئی ہے، پہلی مرتبہ اپوزیشن یکسو اور یکجا نظر آئی ہے۔ اس کی پشت پر مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ ہے۔ مولانا نے پہلے ہی دن سے اس حکومت کو تسلیم کیا اور نہ اپنے احتجاج کی لو کو مدھم ہونے دیا۔ مولانا کا پی ڈی ایم کا سربراہ منتخب ہونا، عمران خان کے لیے شاید ہی کوئی بات اس سے بڑھ کر پریشان کن ہوسکتی ہے۔ مولانا کے اسلام آباد دھرنے کی تکرار ہی آج اپوزیشن کا آخری حربہ ہے۔ لندن کی محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھے ہوئے نواز شریف کا جارحانہ انداز مولانا کے بیانیہ کی قوت میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ نواز شریف کو غیر منصفانہ طور پر اقتدار سے ہٹاکر جیل میں ڈال دیاگیا تھا۔ دو برس تک وہ مفاہمت کے منتظر صبر کی راہ پر چلتے رہے لیکن جس طرح انہیں دیوار سے لگادیا گیا ہے اب ان کے پاس ٹکرائو کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ انہوں نے اپنی کشتیاں جلادی ہیں یا نہیں، تصادم کے نتیجے میں خود انہیں اور ان کی پارٹی کو جگہ ملتی ہے یا نہیں یہ باتیں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے متنازع کردار کی جس طرح کھل کراور شدت کے ساتھ نشاندہی کی ہے، اسے مسائل کے حل کے بجائے مسائل کی وجہ ٹھیرایا ہے، اس سے ان کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر چلاگیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ لمحہ فکر ہونا چاہیے۔
وطن عزیز میں عشروں سے یہی تماشے چل رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جائے تو سیاست دان کرپٹ، غدار اور نجانے کیا کیا قرارپاتا ہے۔ یہی سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے آجائے تو صادق اور امین سمجھا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کا طرزعمل بھی ایسا ہی رہا ہے۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک سیاست دان ڈکٹیٹرز کے معاون ومددگار اور ان کے اقتدار کی درازی اور قوت کو اپنے حریف سیاست دانون کو کچلنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سیاست دانوں کا رویہ وہی ہوتا ہے جو آج تحریک انصاف کا ہے۔ ان سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کا سگا کوئی نہیں ہوتا۔ کل نواز شریف کے ساتھ تھی تو عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں تندوتیز لہجے میں بات کرتے تھے آج اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے سے یوں شاداں ہیں جیسے دولت کونین پا گئے ہوں۔ تاہم عمران خان کی حکومت کا ایک کارنامہ بہرحال ہے جس کے لیے قو م ان کی جس قدر ممنون ہو کم ہے وہ یہ کہ انہوں نے لوگوں کو اس نظام سے بیزار کردیا ہے۔ خود کو دلاسہ اور عوام کودھوکا دینے کے لیے عمران خان کے حامی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ دوڈھائی سال کے بعد اب تحریک انصاف کی حکومت کچھ ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اصلاحات اور کچھ ڈلیور کرنے کی گنجائش اس نظام میں اب ختم ہوچکی ہے۔ یہ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کا ثمر ہے کہ معاشی عدم استحکام، سیاسی انتشار اور سماجی افراتفری نے اس پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔