حکومت کی رِٹ اور شیخ رشید کی رَٹ

304

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید اپنی بیان بازی کو سیاسی پیش گوئی کہتے ہیں۔ سو، ہم بھی اس حوالے سے موصوف کے نئے بیان کو سیاسی پیش گوئی کہیں گے۔ اب یہ الگ موضوع ہے کہ شیخ رشید پیر پگاڑا بننے کی سعی نامشکور فرما رہے ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق جنوری 2021 میں جھاڑو پھر جائے گا۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اس بیان کا بین السطور یہ ہے کہ جنوری 2021ء میں جھاڑو پھرنے کا آغاز ہو جائے گا۔ پھر سیاسی پارٹیوں کے لیے سرخ قالین بچھا دیا جائے گا۔ اور قالین کے شیروں کی جگہ سیاسی شیر آجائیں گے۔
حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ شیخ رشید کی سیاسی بینائی بھی ٹرینوں کی طرح پٹڑی سے اترتی رہتی ہے۔ اور ٹرینوں کے حادثوں کی طرح ان کے سیاسی خیالات بھی نت نئے سیاسی حادثوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ شاید یہ صحبت کا اثر ہے آخر ریلوے کا وزیر ریلوے پر کچھ نہ کچھ اثر تو ہونا ہی چاہیے۔ اب یہی دیکھ لیجیے موصوف فرماتے ہیں کہ وہ بچوں کا بہت احترام کرتے ہیں مگر یہ احترام و عزت اس وقت ان کے غصے کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے جب کوئی بچہ ان سے کوئی سوال کر بیٹھے یا ان کی کارکردگی کے بارے میں سوال اٹھائے۔
شیخ رشید صاحب فرماتے ہیں کہ مریم نواز ان کے لیے بچوں جیسی ہے۔ مگر ان کے بارے میں اس نے جو کچھ کہا ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ اس لیے مریم نواز کوان کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل ہزار بار سوچنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ جو کچھ کریں گے اُسے برداشت کرنا شریف فیملی کے لیے ناممکن ہوگا۔ شیخ صاحب مطمئن رہیے آپ جو کچھ فرمائیں گے وہ ناقابل برداشت ہونے کے باوجود قابل برداشت ہوگا۔ آپ کے فرمان کو برداشت کرنے ہی میں عافیت سمجھی جائے گی۔ ہماری قوم بہت متحمل مزاج اور بردبار ہے۔ یوں ہی وہ آپ کی باتوں پر مسکراہٹ نچھاور کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ ایک بار آپ نے شادی کب کر رہے ہو کے جواب میں کہا تھا جب بازار سے خالص دودھ مل رہا ہو تو بھینس پالنے کی حماقت کیوں کی جائے؟ قوم اس جواب پر بھی سر دھنے لگی تھی حالانکہ آپ کے جواب پر غور کیا جائے تو آپ نے بھرے بازار میں قوم کو ننگا کر دیا تھا۔ آپ نے قوم کی حمیت کو للکارا تھا۔ مگر وہ اس بے عزتی پر بھی مسکرا کر رہ گئی۔ کیونکہ قوم آپ کی باتوں کو ہنسی میں اڑانے کی عادی ہو چکی ہے۔
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ شیخ رشید کی طرح وزیر اعظم کے حامی کہتے ہیں کہ عمران خان نے قوم کا مورال بلند کر دیا ہے۔ اقوام عالم میں باوقار قوم کا درجہ دلایا ہے۔ اقوام متحدہ میں ان کی تقریر نے قوم کو سر فراز اور سر بلند کر دیا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ میں ذوالقرنین چھینہ نے بھارتی مندوب کی تقریر میں جو کچھ کہا وہ وزیر اعظم کی تقریر سے کہیں زیادہ موثر تھا مگر اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے کہ عمران خان آئندہ الیکشن میں بھی سرخرو ہوں گے۔ ان کے لیے سرخ قالین بچھا رہے گا۔ ایسا سوچنے والوں کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اچھی اور مستحکم حکومت کا مطلب عوام کو بہتر سہولتیں اور مراعات مہیا کرنا ہوتا ہے۔ مگر عمران خان کی حکومت نے عوام کے ہاتھ کا نوالا بھی چھین لیا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جس نے عوام کے منہ سے لقمہ بھی نکال لیا ہو وہ اچھا حکمران کیسے ہو سکتا ہے۔ عوام کا منظور نظر کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر غور کرنا لازم ہے۔ ورنہ۔۔۔ جنہوں نے عمران خان کو کندھوں پر بٹھا کر ایوان اقتدار میں پہنچایا ہے وہ کندھا دینا بھی گوارا نہیں کریں گے۔
شیخ رشید کے قبیلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اتنی کمزور ہے کہ وہ اپنا وزن اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ سو، حکومت کے لیے خطرہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اپوزیشن کی کمزوری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمن کے فضل و رحم کی محتاج ہے اور محتاجی کا یہ حال ہے کہ انہوں نے ڈیموکریٹک کے نام سے جو اپوزیشن بنائی ہے اس کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کو سونپ دی ہے۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے پاس اس کے سوا کوئی چوائس بھی نہیں کہ وہ مولانا کی امامت میں ہاتھ باندھ کر اس کے پیچھے کھڑے ہو جائیں۔ اب یہ الگ بات ہے ایک الگ موضوع ہے کہ مریم نواز میاں نواز شریف کو اپوزیشن کا امام کہتی ہیں مگر حقائق کو بدلنا ان کے اختیار میں نہیں متحدہ اپوزیشن نے تحریک چلانے کے لیے کوئٹہ کا انتخاب کیا تھا۔ اور وہ 11اکتوبر 2020ء سے اپنی تحریک کا آغازکر رہی تھیں۔ مگر نامعلوم وجہ کی بنا پر تاریخ موخر کر دی گئی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کی تحریک سیاسی ہنگامہ آرائی کے سوا کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ تحریک انصاف پانچ سال تک کہیں نہیں جار ہی ہے۔ یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز جو ملا ازم سے الرجک ہیں۔ وہ مولانا فضل الرحمن کی گود میں جا بیٹھی ہیں۔ اور یہ خطرناک بات ہے کاش عمران خان کا کوئی وزیر انہیں اس خطرے کا احساس دلا سکتا۔