احادیث اور عورت کی حیثیت۔۔۔؟

206

محمد رضی الاسلام ندوی
(دوسرا اور آخری حصہ)

4۔ ایک حدیث اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے بعد مردوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ فتنہ عورتوں کا ہوگا‘‘۔ (بخاری: 5096)
اس حدیث کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ عربی زبان میں لفظ ’فتنے‘ کا استعمال کن معانی میں ہوتا ہے؟ اس کا اصل معنیٰ ہے سونے چاندی کو آگ میں تپانا، تاکہ اس کا کھوٹا حصہ کھرے حصے سے الگ ہو جائے۔ پھر اس کا استعمال ناپسندیدہ چیزوں کے لیے کیا جانے لگا۔ چنانچہ قرآن مجید میں کبھی اس کا استعمال کفر کے معنیٰ میں ہوا ہے، کبھی گناہ کے معنیٰ میں۔ فتنے کے اصلی معنیٰ آزمائش و جانچ کے ہیں۔ اسی معنیٰ میں اس کا استعمال مذکورہ حدیث میں ہوا ہے کہ اس کے ذریعے سے مرد کو آزمایا جاتا ہے اور اس کا امتحان لیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کی فطرت میں ایک دوسرے کی جانب میلان کا جذبہ رکھا ہے۔ البتہ عورت کے اندر کشش زیادہ ہوتی ہے اور مرد اس کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے بسا اوقات وہ حرام کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے مردوں کو ہوشیار کیا ہے کہ وہ عورتوں کی جانب زیادہ میلان ہونے کی وجہ سے آزمائش میں نہ پڑیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں عورت کے لیے ’فتنے‘ کا لفظ اس کی حقارت و ذلت اور نقص و عیب پر دلالت نہیں کرتا، اور اس سے اس کی قدر گھٹانا مقصود نہیں ہے۔
5۔ ایک حدیث عمران بن حصینؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے جنت میں دیکھا تو اس کے اکثر لوگ فقرا تھے اور میں نے جہنم میں دیکھا تو اس میں اکثر عورتیں تھیں‘‘۔ (بخاری:3241)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت سب کے سب فقرا نہیں ہوں گے، بلکہ دوسرے لوگ بھی ہوں گے۔ اسی طرح جہنم میں صرف عورتیں ہی نہیں ہوں گی، بلکہ دوسرے لوگ بھی ہوں گے۔ دوسری بات اس سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جہنم میں عورتیں محض عورتیں ہونے کی وجہ سے نہیں جائیں گی۔ بہت سی عورتیں متقی اور نیک ہوتی ہیں۔ ان کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جنت و جہنم میں داخلے کا معیار مرد یا عورت ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کے دیگر معیارات ہیں۔
اس مضمون کی ایک دوسری حدیث ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’مجھ کو جہنم دکھائی گئی، تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی۔ وہ نافرمان ہوتی ہیں۔ سوال کیا گیا: کیا وہ اللہ کی نافرمانی کرتی ہیں؟ آپؐ نے جواب دیا: وہ اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی احسان فراموشی کرتی ہیں۔ اگر تم اپنی بیوی کے ساتھ زندگی بھر حسن سلوک کرو، لیکن کسی دن وہ تمھاری طرف سے اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات دیکھے تو فوراً کہہ دیتی ہے کہ تم نے آج تک میرے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ نہیں کیا‘‘۔ (بخاری: 5197)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے جہنم میں جانے کا سبب ان کی ناشکری ہے۔ جو عورتیں اس مذموم خصلت سے بچیں گی وہ جہنم سے محفوظ رہیں گی۔ اس ارشادِ نبوی سے عورتوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح مقصود ہے، ان کی تذلیل و تحقیر، مذمت و ملامت اور نقص و عیب مقصود نہیں ہے۔
6۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے تمہارے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا جو عقل اور دین کے معاملے میں ناقص ہو، لیکن وہ ہوشیار مرد کی عقل کو گم کر دے‘‘۔ (بخاری :304 )
اس حدیث کی بنیاد پر ایک قاعدہ کلّیہ بنا لیا گیا ہے کہ عورتوں میں مردوں کے مقابلے میں عقل کی کمی ہوتی ہے اور ان کی فکری صلاحیتیں مردوں سے کم تر ہوتی ہیں، حالاں کہ حدیث میں یہ بات نہیں کہی گئی۔ یہ احتمال آپ کے اس ارشاد سے دور ہوجاتا ہے کہ ’’عورت ہوشیار مرد کی عقل کو گم کر دیتی ہے‘‘ اگر عورت ’ناقص العقل‘ ہوتی تو کیسے ہوشیار مرد کی عقل کو قابو میں کر لیتی۔ درحقیقت اس حدیث میں مرد پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت کا، جو عورت میں پائی جاتی ہے، تذکرہ کیا گیا ہے۔
اسی حدیث میں آگے یہ وضاحت موجود ہے کہ عورتوں کے ’ناقصات العقل والدین‘ ہونے کا کیا مفہوم ہے؟ عورتوں کے اس سوال پر کہ ناقصات العقل کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کا نصف نہیں ہے؟ آپؐ کا اشارہ اس ارشاد باری کی طرف تھا جس میں بعض صورتوں میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کے برابر قرار دیا گیا ہے، اور اس کی یہ توجیہ بیان کی گئی ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یا دلا دے۔ (البقرہ : 282 ) اس توجیہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورت کی عقلی و فکری صلاحیت مرد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے، بلکہ اس سے ان خارجی اسباب و عوامل کی طرف اشارہ ملتا ہے جو عورت کے غور و فکر کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ان سے وہ جلد متاثر ہوجاتی ہے، کیوں کہ اس کی فطرت میں جذبات کا غلبہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے فطری جذبات سے مغلوب ہو کر اشیا کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے۔ اس کے جذبات بسا اوقات اس کی عقل پر غالب آجاتے ہیں۔ عورتوں نے ’دین میں نقص‘ کا مطلب جاننا چاہا تو آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا: کیا ایسا نہیں ہے کہ تم حیض کی حالت میں روزہ اور نماز نہیں پڑھ سکتیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، تو آپؐ نے فرمایا: تمہارے دین میں نقص کا یہی مطلب ہے‘‘۔ اس جواب سے بھی عورتوں کی تحقیر مقصود نہیں تھی، بلکہ انھیں اللہ تعالیٰ نے جو شرعی رخصتیں دی ہیں اور ان کے ساتھ جو نرمی و آسانی کا معاملہ کیا ہے، اس کو بتلانا مقصود تھا۔
معلوم ہوا کہ اس حدیث میں عورت کو مرد سے کم تر نہیں کہا گیا ہے، بلکہ دونوں کے مزاج میں پائے جانے والے فرق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نقص دین سے وہ کمی مراد لی گئی ہے، جو عبادات کے معاملے میں حیض کی وجہ سے انھیں لاحق ہوتی ہے۔ یہ عورتوں کے لیے کوئی قابل گرفت چیز نہیں ہے۔ اور نقصِ عقل سے مراد ذہانت، دانش مندی یا غوروفکر کی استعداد میں کمی نہیں ہے، بلکہ اس سے صرف اس جانب اشارہ مقصود ہے کہ عورت اپنے جذبات کے غلبے اور مزاج کی رقت و نرمی کی وجہ سے گواہی کو درست طریقے سے منضبط نہیں کر پاتی۔