مولانا فخر الزمان
غصہ آگ کا شعلہ ہے، جو جہنم کی آگ سے لیا گیا ہے۔ غصے کا انجام حسد اور کینہ ہے۔ غصے کی شناعت میں آپؐ کا وہ ارشاد ہے کہ جب ایک شخص نے آپؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی وصیت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: غصہ نہ کیا کر، کئی مرتبہ تکرار کے ساتھ آپ نے یہی جملہ فرمایا کہ غصہ نہ کیا کر۔
بخاری ومسلم میں ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ پہلوانی اپنے حریف کو پچھاڑ نے کا نام نہیں، بلکہ پہلوانی غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو رکھنے کا نام ہے۔
ابو درادءؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے ایسا کوئی عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے، آپؐ نے فرمایا: غصہ مت کیا کرو۔
بعض حکما کا قول ہے کہ جو اپنی شہوت اور غصے کی اطاعت کرے گا، یہ دونوں اس کو جہنم کی طرف کھینچ کر لے جائیں گے۔ وہب بن منبہؒ فرماتے ہیں کفر کے چار ارکان ہیں: غصہ، شہوت، جہالت، لالچ۔ غصہ درحقیقت انتقام لینے کے لیے دل کے خون کا جوش مارنا ہے، پس انتقام غصے کے لیے غذا ہے۔ لوگ غصہ کرنے میں تین طرح کے ہیں: افراط، تفریط، اعتدال۔
جب غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو غصہ کرنے والے کو گمراہ اندھا اور اس کے کانوں کو نصیحت سننے سے بہرہ کر دیتی ہے اس لیے کہ غصہ جب دماغ کی طرف چڑھتا ہے تو غور وفکر کے خزانوں پر پردہ ڈال لیتا ہے اور کبھی کبھی تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی ختم کر دیتا ہے، پس غصہ کرنے والے کی آنکھیں ظلم کرتی ہیں، مگر اس کو یہ ظلم دکھائی نہیں دیتا، دنیا اس کے سامنے سیاہ ہو جاتی ہے، اس کا دماغ اس غار کی طرح ہو جاتا ہے، جس میں آگ جلائی گئی ہو اور اس آگ سے اس غار کی فضا کالی ہو گئی ہو، اس کے اندر تپش بھر گئی ہو، وہ دھویں سے بھر گئی ہو اور اس کے اندر ایک ٹمٹماتا چراغ ہو اور وہ بھی بجھ گیا ہو تو اس میں نہ قدم ٹھہر سکیں، نہ اس میں کوئی آواز سنائی دی جائے، نہ اس میں کوئی صورت نظر آئے اور نہ اس آگ کو بجھانے پر قدرت ہو، پس یہی کیفیت غصے کے وقت قلب ودماغ کی ہوتی ہے اور بعض دفعہ جب غصہ حد سے بڑھ جائے تو اپنے ساتھی کو قتل بھی کر دیتا ہے۔
غصہ آنے کے اسباب یہ ہیں: حقارت، مزاح، تکبر، مذاق اڑانا، تمسخر، بڑائی کرنا، مخالفت کرنا، غداری کرنا، فضول مال ومرتبے کے حصول کا حرص، مندرجہ بالا تمام امور شرعاً اخلاق رذیلہ میں شمار کیے جاتے ہیں، ان تمام امور کے ہوتے ہوئے غصے سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا، ان تمام اخلاق رذیلہ کو زائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اخلاق رذیلہ کی ضد اچھے اخلاق کو اپنایا جائے۔
البتہ جب غصہ بھڑک اٹھے تو اس کا درج ذیل امور سے علاج کیا جاسکتا ہے۔
وہ احادیث مبارکہ جو غصے کو روکنے کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں، ان کا استحضار کیا جائے، اسی طرح عفو ودرگزر اور تحمل وبرداشت کے متعلق جو فضائل وارد ہوئے ہیں، ان پر غور کیا جائے۔
اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائے۔
اپنے نفس کو دشمنی اور انتقام کے انجام سے ڈرائے۔
غصے کے نقصانات کے بارے میں سوچے اور ان اسباب پر غور کرے جو اس کو انتقام کی طرف لے جائیں گے۔
یہ خیال کرے کہ غصہ ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور احکام کی بجا آوری کے لیے ہونا چاہیے۔
بہرحال غصہ دور کرنے کے لیی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم! پڑھ لے اور اپنی حالت کو بدل لے، یعنی اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ کیونکہ ہمیں نبی کریمؐ کی جانب سے غصے کے وقت وضو کرنے کا حکم وارد ہوا ہے۔
غصے کے وقت وضو کرنے کی حکمت حدیث شریف میں یوں بیان کی گئی ہے:
ابوداؤد میں وائلؓ سے مروی ہے کہ ہم عروہ بن محمدؓ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے ایسی بات کہی، جس پر آپ کو شدید غصہ آگیا۔ یہ سن کر وہ کھڑے ہوئے اور وضو فرمایا۔ پھر تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے میرے باپ نے، میرے دادا عطیہ سے، جو کہ صحابی ہیں، بیان کیا ہے، کہتے تھے کہ: رسول اکرمؐ نے فرمایا: بے شک غصہ شیطان کی جانب سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے، پس جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہیے وضو کر لے‘‘۔
البتہ بیٹھنے اور لیٹنے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کی حکمت غالباً یہ ہے کہ کھڑے ہونے سے بیٹھنا زمین کے زیادہ قریب ہے اور بیٹھنے سے لیٹنا زمین کے زیادہ قریب ہے اور انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے اورمٹی میں عاجزی وانکساری ہے تو غضب ناک انسان بیٹھ یا لیٹ کر اپنی ذلت کو یاد کرکے غصے کو کم کرے۔