افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

114

اسلام میں سزا کا تصور
اسلام میں سزا کا تصور خیرخواہانہ ہے نہ کہ بدخواہانہ۔ اسلام کسی کو غصے اور طیش میں نہیں مارتا۔ دشمنی کا جذبہ اس کے کسی قانون میں نہیں پایا جاتا۔ یہاں سزا کے اندر ’’تطہیر‘‘ کا داعیہ کارفرما ہے۔ یہاں آدمی کو سزا اس لیے دی جاتی ہے کہ ارتکابِ جرم سے اْس کے نفس و روح کو جو نجاست لگ گئی ہے اسے دھو ڈالا جائے۔ اسے پاک کر دیا جائے تاکہ وہ آخرت کی سزا سے بچ جائے۔ (تفہیمات دوم)
٭…٭…٭
خواہش
پہلے خواہش کو لیجیے۔ کیا یہ انسان کی رہنما بن سکتی ہے؟ اگر چہ یہ انسان کے اندر اصلی محرکِ عمل ہے، مگر اس کی عین فطرت میں جو کمزوریاں موجود ہیں ان کی بنا پر یہ رہنمائی کے قابل ہر گز نہیں ہو سکتی۔ تنہا رہنمائی کرنا تو درکنار، عقل اور علم کو بھی اکثر اسی نے گمراہ کیا ہے۔ اس کو تربیت سے خواہ کتنا ہی روشن خیال بنا دیا جائے، فیصلہ جب کبھی اس پر چھوڑا جائے گا یہ بلامبالغہ 99 فیصد حالات میں غیرمستقیم فیصلہ کرے گی۔ کیونکہ اس کے اندر جو تقاضے پائے جاتے ہیں وہ اس کو صحیح فیصلہ کرنے کے بجائے ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں جس سے مطلوب کسی نہ کسی طرح جلد اور بآسانی حاصل ہوجائے۔ یہ بجائے خود ’’خواہش نفسانی‘‘ کی طبعی کمزوری ہے۔ لہٰذا خواہ ایک فرد کی خواہش ہو یا ایک طبقہ کی، یا وہ خواہش عام (General will) جس کا روسو نے ذکر کیاہے، بہرحال کسی قسم کی انسانی خواہش میں بھی فطرتاً یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ایک الدین کے وضع کرنے میں مددگار بن سکے بلکہ جہاں تک مسائل عالیہ (Ultimate Problems) مثلاً حیات انسانی کی حقیقت، اس کے مآل اور اس کی غایت کا تعلق ہے، ان کو حل کرنے میں تو وہ کسی طرح مددگار بن ہی نہیں سکتی۔ (دین حق)
٭…٭…٭