برطانیہ کے مسلمان ایک نئی وبا سے دوچار

554

برطانیہ میں آباد ۳۴ لاکھ سے زیادہ مسلمان ایک نئی وبا سے دوچار ہیں۔ حکمران ٹوری پارٹی کے بارے میں ایک تازہ سروے میں سخت تشویش ناک انکشاف ہوا ہے کہ پارٹی کے ایک لاکھ ۸۰ ہزار اراکین میں سے آدھے سے زیادہ اسلامو فوبیا، اسلام سے نفرت اور خوف میں مبتلا ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ اسلام، برطانیہ کے لیے خطرہ ہے کیونکہ اسلام برطانوی طرز زندگی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ ۵۸ فی صد اراکین کو یقین ہے کہ برطانیہ میں بیش تر علاقے ایسے ہیں جہاں شریعت کے قوانین رائج ہیں اور غیر مسلم ان علاقوں میں داخل نہیں ہو سکتے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں بس بعض سنسنی خیز اخبارات نے یہ جھوٹی خبریں پھیلائی ہیں، یہ اخبارات ہمیشہ اسلام دشمنی میں پیش پیش رہتے ہیں۔
گو ایک عرصہ سے ٹوری پارٹی میں اسلام سے نفرت کے بارے میں تشویش ظاہر کی جارہی تھی اور خود ٹوری پارٹی کی سابق چیر پرسن سعیدہ وارثی اس مہم میں پیش پیش تھیں لیکن جب سے بورس جانسن وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے ہیں سروے کے مطابق ٹوری پارٹی میں اسلام دشمن اراکین کی تعداد میں ستر فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ عام رائے ہے کہ حقیقی اختیار اور طاقت بورس جاسن کے مشیر اعلیٰ ڈومنیک کمنگس کو حاصل ہے اور جب سے ڈومنیک کمنگس کو عروج حاصل ہوا ہے برطانوی کابینہ میں اسلام دشمنی میں اضافہ ہوا ہے اور کابینہ کی ہئیت بدل گئی ہے۔ کابینہ میں جتنے اہم عہدوں پر جو مسلم وزرا تعینات تھے وہ ایک ایک کرے ہٹا دیے گئے اور ان کی جگہ ہندوستانی نژاد وزرا تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں ساجد جاوید ہیں جو بورس جانسن کی پیش رو وزیر اعظم ٹریسا مے کی کابینہ میں وزیر داخلہ تھے اس کے بعد انہیں وزارت خزانہ کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔ لیکن بورس جانسن نے ساجد جاوید کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹا کر ہندوستانی نژاد رشی سوناک کو وزیر خزانہ مقرر کیا۔ ایک اور ہندوستانی نژاد الوک شرما کو وزیر تجارت مقرر کیا۔
اس بات میں کسی کو شبہ نہیں کہ کابینہ سے مسلم وزرا کے اخراج کے پیچھے بورس جانسن کے مشیر ڈومنیک کمنگس کا ہاتھ ہے جن کے نزدیک کابینہ میں ہندوستانی نژاد وزرا کی شمولیت اور انہیں نمایاں عہدوں پر فائز کرنے کا مقصد یورپ سے برطانیہ کی علٰیحدگی کے بعد ہندوستان کے ساتھ تجارتی سمجھوتوں کی راہ ہموار کرنا ہے۔
گزشتہ سال ٹوری پارٹی نے اسلامو فوبیا کے مسئلے کے بارے میں تحقیقات کا اعلان کیا تھا لیکن پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ تحقیقات کی صورت میں وہ بے نقاب ہوتے۔ لوگ ابھی بھولے نہیں کہ بورس جانسن نے وزیر اعظم بننے سے پہلے حجابی مسلم خواتین کے بارے میں کیا کیا کچھ نہیں کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حجابی مسلم خواتین لیٹر بکس لگتی ہیں۔ یہی نہیں بورس جانسن نے جریدہ اسپیکٹیٹر میں ۲۰۰۵ میں لکھا تھا کہ برطانیہ کے لیے اسلام مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا اسلام کے تئیں قدرتی رد عمل ہے۔
بلا شبہ اسلام کے بارے میں بورس جانسن کی رائے کی وجہ سے ٹوری پارٹی میں اسلام سے نفرت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورت حال برطانیہ کے مسلمانوں کے لیے سخت تشویش کا باعث ہے کیوںکہ حکمران پارٹی میں اسلام دشمنی اس معاشرہ میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خوشحال زندگی کی راہیں مسدود کر سکتی ہے۔ برطانیہ کی تاریخ میں ایسی صورت حال کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اب تک مسلمانوں کو نسل پرستی کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن انہوں نے ایشائیوں اور برطانیہ کے آزاد خیال افراد کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کیا ہے تاہم اسلام دشمنی کے مسئلے کے سامنے مسلمان تن تنہا ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ کی موجودہ نسل یہ بھلا چکی ہے کہ دو عالم گیر جنگوں میں جب برطانیہ کی آزادی اور وجود کو ہٹلر کی جارحیت سے خطرہ تھا تو انگریزی فوجوں میں شامل برصغیر کے مسلم فوجیوں نے برطانیہ کی سلامتی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی تھی۔ دوسری عالم گیر جنگ میں ۲۵لاکھ مسلم فوجیوں نے برطانیہ کے دفاع میں حصہ لیا تھا اور پہلی عالم گیر جنگ میں لڑنے والی ۱۳ لاکھ انڈین آرمی میں مسلم فوجیوں کی تعداد چار لاکھ تھی۔ آج برطانیہ میں جو لوگ اسلامو فوبیا میں مبتلا ہیں ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ محض نا شکری کر رہے ہیں ان مسلم فوجیوں کی قربانیوں کی جو انہوں نے اس ملک کی سلامتی کے لیے دیں ہیں۔