پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ملک کی گیارہ جماعتوں نے اپنے مستقل سربراہ کے لیے مولانا فضل الرحمن کا انتخاب کرلیا۔ پیپلزپارٹی سمیت کچھ جماعتیں اس بات پر اصرار کرتی رہ گئیں کہ سربراہی ایک چکر کی طرح قائدین کے درمیان گردش کرتی رہے مگر مولانا نے بھلا یہ سارا میلہ کسی اور کے لیے سجایا تھا؟ سو تجویز کی یہ کلی بن کھلے مرجھا گئی اور اب اتحاد کے واحد اور مستقل سربراہ مولانا فضل الرحمن ہوں گے۔ مولانا کے لیے یہ ہفتہ کیسا رہا؟ اس کے لیے برجوں اور ستاروں کی دنیا کا احوال جاننے کی ضرورت نہیں۔ مولانا اتحادی سیاست کی آتش بھڑکا کر خود وادی نیلم کے حسین نظاروں کا لطف لینے چلے گئے۔ ایک دو نہیں پورے چار دن وہ اس وادی کے حسن میں کھوئے رہے اور کبھی دریائے نیلم کے نیلگوں پانیوں کے کنارے سیاہ چشمہ پہنے اور معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ تو کبھی پرستان کا منظر پیش کرنے والے کسی سرسبز میدان میں بچھے ایرانی قالین پر بیٹھے ہوئے ان کی تصویریں وائرل ہوتی رہیں۔ حکومتی نمائندوں کا بس چلتا تو ان تصویروں پر ’’آگ لگا کر چھپنے والے سن میرا افسانہ‘‘ کا کیپشن رقم کرتے، مگر مولانا آگ لگا کر چھپنے کے بجائے پہاڑیوں اور وادیوں کی طرف نکل گئے تھے۔ جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے کے مصداق مولانا پہاڑوں سے اترے تو پی ڈی ایم کے سربراہ بنائے گئے۔ خدا نہ کرے کہ پاکستان میں سیاست اب کسی کے لیے سوئے دار کا سفر ثابت نہ ہو مگر وادی ٔ نیلم کے مسحور کن ماحول سے سیدھا گیارہ جماعتی اتحاد کی سربراہی کا بوجھ دار کا تو نہیں تنی ہوئی رسی کا سفر ضرور ہے۔
مولانا نے جس طرز کی اتحادی سیاست کی آتش بھڑکائی ہے وہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں متروک ہو چکی تھی۔ غالباً اس طرز کی سیاست کا آخری تجربہ مرحوم ومغفور اے آرڈی تھی جسے میاں نوازشریف نے اچانک سعودی عرب سدھار کر بھرے آسمان تلے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ ان کا جہاز بحیرہ عرب کے پانیوں پر محو پرواز تھا جب اتحادی ساتھیوں کو اس کی خبر ملی۔ اس کے بعد بلکہ اس رخصتی وروانگی ہی سے پاکستان میں ایک نئی اتحادی سیاست کا ظہور ہوا۔ اس اتحادی طرز سیاست کا نام مفاہمتی سیاست قرار پایا اور اس کے ماسٹر مائنڈ آصف زرداری تھے۔ اس کی ابتدا میثاق جمہوریت تھا۔ یہ وقت کی دو حریف طاقتوں کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کرنے کا معاہدہ تھا جس میں برطانیہ جیسے ملکوں کا ایک پس پردہ کردار تھا۔ یہ باقاعدہ اتحادی سیاست نہیں تھی بلکہ شراکت داری تھی۔ اس میںآدھا تمہار آدھا ہمارا یا جیو اور جینے دو کا اصول غالب اور بالادست تھا۔ ٹھیٹھ پارلیمانی تصور کے برعکس اس شراکتی سیاست نے سیاسی میدان میں اپوزیشن کے وجود کا جو خلا پیدا کیا اسے عمران خان نے دائیں بائیں سے مدد حاصل کرکے پُر کیا۔ اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ایک بار پھر عمر رفتہ کو آواز دینے اور وقت کا پہیہ اُلٹے گھمانے کی کوشش ہے اس دوران پلوں تلے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جس ماحول میں جمہوریت کا علم لے کر چل نکلی ہے وہ ماضی سے بہت سے حوالوں سے قطعی مختلف ہے۔ اس وقت سے بھی قطعی جدا گانہ ہے جب مولانا مفتی محمود نے پاکستان قومی اتحاد اور نواب زادہ نصر اللہ خان نے اے آر ڈی کی سربراہی سنبھال کر مزاحمتی اور احتجاجی سیاست کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان میں اتحادوں کی حیثیت کھچڑی کی ایسی دیگ جیسی ہوتی ہے جس میں تمام اجزا ملا کر رکھ دیے ہوں مگر جب تک یہ دیگ چولھے پر نہیں چڑھے گی کھچڑی پکنے کا نام نہیں لے گی اور نہ کوئی اس دیگ سے مستفید ہو سکے گا۔ سیاسی تاریخ کے مطابق کھچڑی کے لیے آتش دان کا کام اسٹیبلشمنٹ کی نیک تمنائیں ہوا کرتی ہیں۔ آتش دان میسر نہ ہو تو ایم آرڈی کی تحریک بس حرکت ہی میں رہتی ہے اور اے آر ڈی کی تحریک کنٹینر پر ہی دم توڑ دیتی ہے اور تحریک کی روح قفس ِ عنصری سے سمندر پار کرجاتی ہے۔ اس بار تو معاملہ ایک صفحے کا ہے۔ ایک صفحے کی ٹوہ لگانے کے لیے محمد زبیر دو بار راولپنڈی صدر کے علاقے میں گھومتے پائے گئے مگر ان کے یہ چکر طواف ِکوئے ملامت ہی ثابت ہوئے اور انہیں ایک صفحے کی کہانی کا اینٹی کلائمکس کہیں دکھائی نہ دیا اور چار وناچار میاںنوازشریف کو اپنی کشتیاں جلا کر عمران خان کے بجائے اسٹیبشلمنٹ کو مستقل ہدف بنائے رکھنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
پی ڈی ایم کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ ملک میں آمریت نہیں کہ جمہوریت کے قیام کا نعرہ لگایا جائے۔ جو لوگ جمہوریت کے نام پر اکٹھے ہوں گے وہ اپنے ناموں کے ساتھ رکن قومی اسمبلی، رکن سینیٹ، چیرمین اسٹینڈنگ کمیٹی کے سابقے اور لاحقے لگا کر صبح پارلیمنٹ لاجز سے جمہوریت بحال کرانے نکلیں گے تو کتنا عجیب سا لگے گا؟۔ پیروکار اور نعرہ زن لوگ بھی پوچھیں گے کہ کون سی جمہوریت بحال کی جانی مقصود ومطلوب ہے۔ جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے لیے پہلے آمریت قائم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک مشکل یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں مختلف الخیال اور ایک دوسرے کے حوالے سے ماضی کے تلخ وشیریں کی یادوں کا بوجھ اُٹھانے والے لوگ شامل ہیں۔ اتحاد میں میاں نوازشریف اور محمود اچکزئی کی صورت میں عقاب موجود ہیں وہیں مفاہمت کے جادوگر آصف زرداری اور ڈپلومیسی کے شناور شہباز شریف بھی موجود ہیں۔ یہ اس اتحاد کو انقلاب کی راہوں پر چلتا تو رکھیں گے مگر اسے منزل پر پہنچنے نہیں دیں گے۔ جونہی ایک پلڑا نیچے ہوگا یہ اس پلڑے کو برابر کردیں گے۔ عین ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کا کوئی اہم رکن اسے اے آر ڈی کی طرح حیران وپریشان چھوڑ کر معاملات طے نہ کر لے اور اس بار سرپرائز دینے کی باری ماضی کے برعکس کسی اور کی ہو سکتی ہے۔ اتحادی کھچڑی کی اس دیگ کی ایک اور مشکل تو یہ ہے کہ جس ذائقے کی ڈش بنانا مطلوب ہے وہ ہدایت آن لائن نہیں دی جا سکتی اس کے لیے اصل ہدایت کار کو پاکستان آکر دیگ کی نگرانی کرنا ہو گی۔ میاں نوازشریف کے پاکستان آئے بغیر اتحادی سیاست کا معنی خیز ہونا ممکن نہیں۔ ان مشکلات کے دوران حکومت کے انتظامی اور سیاسی دائو پیچ ایک الگ مشکل ہے جس کا فی الحال کوئی ذکر نہیں۔ حکومت جس قدر کمزور ہو ٹرمپ کارڈ اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔