حقوق کراچی ریفرنڈم۔ ہر شہری شرکت کرے

230

حقوق کراچی کے لیے ایک توانا آواز جماعت اسلامی نے اٹھائی ہے۔ تین کروڑ آبادی والے اس شہر کی مردم شماری میں دھاندلی کا پردہ چاک کیا ہے۔ کراچی کے لیے بااختیار بلدیہ کا مطالبہ کیا ہے اور کے الیکٹرک، بحریہ ٹائون، سرکاری اداروں کا قبلہ درست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں کراچی کے نوجوانوں کا حق مانگا ہے۔ اس حوالے سے حقوق کراچی مارچ نے اہل کراچی میں بیداری کی لہر دوڑا دی اور طویل عرصے بعد لوگوں نے محسوس کیا کہ کوئی ان کی بات کر رہا ہے پورے خلوص سے کر رہا ہے اور کسی صلے اور ستائش کی تمنا اور مطالبے کے بغیر کر رہا ہے۔ ابھی کچھ ہی دن قبل بارش نے کراچی کو تقریباً ڈبو کر رکھ دیا تھا لیکن سارے شور شرابے اور میڈیامہمات کے باوجود جو لوگ شہر کے کونے کونے میں متاثرین کے ساتھ کھڑے تھے گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو تباہ شدہ علاقوں سے باہر نکال رہے تھے خوراک پہنچا رہے تھے۔ جماعت اسلامی کے رضا کار تھے یہ الخدمت کی ٹیم تھی۔ یہ ٹیم 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں بھی متاثرین کے ساتھ تھی اور اب بھی ہے۔ 27 ستمبر کے حقوق کراچی مارچ میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے 16 تا 18 اکتوبر اس مسئلے پر عوامی ریفرنڈم کا اعلان کیا تھا۔ حقوق کراچی تحریک کے دوسرے مرحلے میں یہ ریفرنڈم انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک جانب اہل کراچی نے یہ تو محسوس کر لیا ہے کہ جماعت اسلامی نے ان کے دل کی بات کہہ دی ہے اس کے لیے وہ میدان میں بھی ہے۔ اسے لوگ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے لیے اپنے حقوق کے حصول کا بس یہی راستہ نہیں ہے بلکہ آگے بڑھ کر پہلے مرحلے میں اہل کراچی کو اس ریفرنڈم میں بھرپور حصہ لینا ہوگا۔ سب سے پہلے تین کروڑ انسانو اپنی گنتی پہنچانو، کے نعرے پر توجہ دینے کی ضرور ت ہے جو محض نعرہ نہیں ہے بلکہ کراچی کی بیداری کے لیے انہیں اٹھانے کے لیے ضروری بھی تھا۔ حافظ نعیم کی پرزور مہم نے پورے کراچی کے لوگوں کو کم از کم سوچنے پر تو مجبور کیا ہے۔ ہر طرف یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ کراچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور زیادتی کے ازالے کا طریقہ یہی ہے کہ عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کراچی کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے کراچی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ جب سے جماعت اسلامی نے مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس وقت سے کراچی کو تباہ کرنے والی ایم کیو ایم کے تینوں، چاروں دھڑوں، کراچی کے اداروں پر انتظامی کنٹرول حاصل کرکے ان کے فنڈز اپنے قبضے میں لینے والی پیپلز پارٹی بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ان سب کی زبان پر کراچی کراچی ہے لیکن اقدامات سب نے کراچی کے خلاف کیے۔ ایم کیو ایم اور حکومت سندھ نے مل کر کے فور کی راہ میں رکاوٹ ڈالی۔ کراچی ماس ٹرانزٹ ختم کر دیا۔ ائرکنڈیشنڈ بسیں بند کیں۔ سرکلر ریلوے کی لائنوں پر قبضے کرائے۔ اب یہ لوگ کراچی کی نمائندگی کی بات کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو مصنوعی طور پر مسلط کرنے کا منصوبہ بھی سامنے آچکا ہے لیکن کوئی مصنوعی قیادت مسائل کے حل کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ اس اعتبار سے کراچی کے مستقبل کا واحد دارومدار جماعت اسلامی پر ہے۔ جماعت اسلامی تین مرتبہ اس شہر کی بھرپور خدمت کر چکی ہے اور اگر عبدالستار افغانی کے دو ادوار اور نعمت اللہ خان کا ایک سنہری دور کراچی پر نہ گزرا ہوتا تو جو کراچی آج نظر آرہا ہے وہ بھی نظر نہ آتا۔ حافظ نعیم الرحمن نے حقوق کراچی ریفرنڈم کے حوالے سے اعلان کیا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کے چیدہ لوگوں کو جمع کرکے حقوق کراچی الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو حقوق کراچی ریفرنڈم کے نتائج بھی مرتب کرے گا اور اعلان بھی کرے گا۔ اس طرح یہ پیغام بھی دینا مقصود ہے کہ کراچی کو بااختیار شہری، حکومت کے لیے بااختیار اور آزاد الیکشن کمیشن بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کے اعلان کے مطابق 14 اکتوبر کو ملک گیر یوم یکجہتی کراچی بھی منایا جائے گا۔ جماعت اسلامی کراچی نے بہترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے کراچی کو منی پاکستان تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے۔ سراج الحق نے اپنے وعدے کے مطابق کراچی کے مطالبات سینیٹ میں پیش بھی کر دیے ہیں اور یقینی بات ہے کہ وہ کراچی کے بہترین وکیل ثابت ہوں گے اگرچہ کراچی سے کراچی کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے سینٹرز بھی وہاں موجود ہیں لیکن انہوں نے کبھی ایسی تحریک کراچی کے لیے پیش نہیں کی۔ جماعت اسلامی نے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ان کا نشانہ اور ان کا نقصان اٹھانے والے آبادی کے تمام طبقات ہیں۔ بجلی کے بے ہنگم بل ہر زبان بولنے والے کو لوٹ رہے ہیں۔ بہتے ہوئے گٹر زبان اور نسل پوچھ کر لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے ان کا فیض عام ہوتا ہے۔ پانی رنگ زبان اور علاقہ پوچھ کر بند اور گندا نہیں ہوتا جب غلاظت ملا پانی آتا ہے تو ہر گھر میں آتا ہے۔ جب سڑکیں ٹوٹی ہوتی ہیں تو سب کے لیے ٹوٹی ہوتی ہیں اور سب کو لوٹا جاتا ہے۔ جب قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو سب کے خلاف ہوتی ہے۔ حافظ نعیم نے اسی بدانتطامی اور غیر قانونی نظام کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اب اہل کراچی کا فرض ہے کہ اپنے حق کے لیے اس آواز میں آواز ملائیں اور حقوق حاصل کریں۔