’’گریٹراسرائیل‘‘ منصوبہ خواب ہی رہے گا

142

سمیع اللہ ملک
کیا نیتن یاہو گریٹر اسرائیل کے خواب کی تکمیل کے لیے جلدمشرق وسطیٰ کانقشہ بدلنے جا رہا ہے اور بظاہر دنیا یہ سب ہوتادیکھتی رہ جائے گی؟ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس کے مطابق اسرائیل کی طرف سے غرب اُردن کایکطرفہ الحاق بین الاقوامی قوانین کی سب سے سنگین خلاف ورزی ہوگی۔ مسلم دنیااوریورپی ممالک بھی فلسطینی غرب اُردن کوزبردستی ہتھیانے کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت اورمخالفت کرچکے ہیں لیکن اس کاکوئی اثرنہیں ہوا کیوں کہ نیتن یاہو کو اس انتہائی متنازع اقدام کے لیے امریکی صدرڈونلڈٹرمپ اور انتہائی مضبوط یہودی لابی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت دنیاکی مکمل تجارت ’’تیل، ادویہ اور اسلحہ کی صنعت‘‘ کے علاوہ الیکٹرانک اور دیگر ضروریات زندگی کو38 کارپوریشنز کنٹرول کررہی ہیں اوریہ تمام عالمی کارپوریشنز یہودیوں کی ملکیت ہیں اور انہوں نے بڑی چابکدستی سے چین کے اندربھی بہت سے شعبوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے، تاہم پچھلے 10 برس سے چین نے بڑی حکمت کے ساتھ اپناکنٹرول بحال کرلیاہے، جس کے بعد یہ کارپوریشنزبھی کھل کرسامنے آگئی ہیں اورہرصورت میں دنیامیں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی سبقت کونیچادکھانے کے لیے پہلے سے زیادہ متحرک ہوگئی ہیں۔ اس حوالے سے یقیناًامریکی سپرمیسی کوآلہ کارکے طورپراستعمال کرنے کے لیے سازشیں جاری ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین اس بات پرمتفق ہیں کہ نیتن یاہو طاقت کے زور پرجوکچھ کرنے جارہاہے اس کے خطے کے امن و استحکام پرگہرے منفی اثرات پڑیں گے۔ نیتن یاہوغرب اُردن کااسرائیل کے ساتھ زبردستی الحاق کرنے کے بعداگرفلسطینیوں کووہاں سے بے دخل کرسکتا تو شاید کردیتا لیکن ایساممکن نہیں۔ غرب اُردن میں فلسطینیوں کی تعداد تقریباً 25 لاکھ ہے۔ اسرائیل کاحصہ بننے کی صورت میں فلسطینی اسرائیلی آبادی کا 40 فیصدہوجائیں گے۔ نیتن یاہو چاہے توانہیں اسرائیلی شہریت دے کربرابری کے حقوق کاوعدہ کرسکتا ہے لیکن ایسا کرنے سے اسرائیل میں فلسطینیوں کی تعدادبڑھ جائے گی جس سے یہودی اکثریت کوخطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے نیتن یاہوفلسطینیوں کوبطورشہری برابرکے حقوق دینے کے بھی خلاف ہے اور اگراسرائیل نے فلسطینیوں کو اپنے ہی علاقے میں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کی تواس سے غم وغصہ بڑھے گا۔ جنوبی افریقامیں سفیدفام اقلیت نے ایک عرصے تک مقامی سیاہ فام آبادی پراسی طرح حکومت کی اوراس کا استیصال کیالیکن وہاں کے لوگوں کی جدوجہداورعالمی دباؤکے بعد بالآخر اس نظام کاخاتمہ ہوگیا۔ اسرائیل کے لیے آج کے دورمیں اسی طرح کاامتیازی نظام متعارف کرناناممکن نہیں تومشکل ضرور ہوگا۔ آگے جاکر اس روش کے خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
صہیونی ریاست کے اس انتہائی اقدام پر شاید کوئی فوری شدید ردِعمل سامنے نہ آئے اور عرب حکمران اور دیگر ممالک فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی دکھانے کے لیے زبانی کلامی اسرائیل کی مذمت کریں گے لیکن انتہائی افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ عملی طورپر دنیا نے بظاہر فلسطینیوں کواب ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ بیشترممالک سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے پر امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ایک حدتک ہی محاذآرائی کی جاسکتی ہے لیکن فلسطینیوں کی خاطران سے لڑا ئی نہیں کی جاسکتی۔ خود فلسطینی قیادت اتنی مایوس ہے کہ اس کاکہناہے کہ وہ اس کی سخت مخالفت کرے گی لیکن اسرائیل کے خلاف پرتشددمظاہروں کی حمایت نہیں کرے گی۔
امریکاسمیت عالمی برادری 90ء کی دہائی سے اوسلومعاہدے کے تحت خطے میں دوریاستوں کے قیام کے لیے کوشاں رہی ہے لیکن دنیا کی نظر میں نیتن یاہوکایہ اقدام فلسطینیوں کااپنی علاحدہ ریاست کادیرینہ خواب چکناچورکرنے کے مترادف ہے اورنیتن یاہوکی ان خواہشات میں ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے خوب رنگ بھراہے اورحالیہ عرب معاہدوں کے لیے سب سے زیادہ اس نے وہی کام کیاہے، جوخلافتِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لیے لارنس آف عربیہ نے کیا تھا۔ نیتن یاہو اور ان کے حمایتیوں کے نزدیک غرب اُردن کاعلاقہ انتہا پسندیہودی عقیدے کے اعتبار سے اسرائیل کااٹوٹ انگ ہے اورملک کی سلامتی کے لیے بھی ناگزیر ہے، لیکن دنیاکے نزدیک اسرائیل نے ان علاقوں پر 1967ء کی جنگ کے بعدسے قبضہ کررکھاہے۔ پچھلی چنددہائیوں میں اسرائیل ان مقبوضہ علاقوں میںنئے زمینی حقائق قائم کرنے کی پالیسی پرگامزن رہاہے جس کے تحت وہاں مسلسل نئے گھراورفلیٹ تعمیرکرکے باہرسے یہودی خاندانوں کو لاکر بسایا جاتا رہا ہے۔ عالمی برادری کی نظرمیں یہ تعمیرات غیرقانونی ہیں۔ اس کے باوجودآج غرب اُردن کی ان بستیوں میں تقریباً 5 لاکھ اسرائیلی یہودی بستے ہیں۔ نیتن یاہوکاخیال ہے کہ وہ طاقت کے بل پرگریٹراسرائیل کے خواب کوعملی جامہ پہنانے کے لیے تیارہے لیکن دنیاکی نظرمیں ان کا یہ عمل خطے کوتباہی اورجنگ کی طرف دھکیل رہاہے جس سے اسرائیل کے وجودکوبھی شدیدخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
دوقومی نظریہ تقسیم ہند کا اصل محرک بنایعنی مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، جن کامذہب،ثقافت،تاریخ،رہن سہن اورتہذیب وتمدن سب یکسرمختلف ہے۔اس فلسفے کے تناظرمیں مملکتِ خداداد پاکستان معرضِ وجودمیں آیا اور ہندوستان دو الگ ملکوں میں بٹ گیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری1948ء میں امریکاکے نام پیغام میں فرمایا تھا ’’میں نہیں جانتاکہ پاکستان کے دستورکی آخری شکل کیاہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کاآئینہ داراورجمہوری انداز کا ہوگا۔ اسلام کے اصول آج بھی ہماری زندگیوں میں اسی طرح قابل عمل ہیں، جس طرح1300 سال پہلے تھے۔ اسلام نے ہمیں وحدتِ انسانیت اور عدل ودیانت کی تعلیم دی ہےــ‘‘۔ یہ تھاوہ نظریہ جس کی بنیاد پرپاکستان وجودمیں آیا۔ یہ کوئی نیانظریہ نہیں بلکہ بنیادی طورپریہ وہی نظریہ ہے جورسول کریم ﷺ نے آج سے تقریباً1450 سال قبل انسانیت کودیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے 9 ماہ بعدہی اسرائیل کے نام سے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کی ناجائز جبری ریاست قائم کی گئی۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم اورصیہونی تنظیم کے سربراہوں میں سے ایک ڈیوڈ بین گوریان نے اپنی پہلی تقریرکرتے ہوئے کہاکہ ریاست اسرائیل کواگرکسی سے خطرہ ہے تووہ پاکستان ہے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پرمعرضِ وجودمیں آیا ہے۔ واضح رہے کہ 14 اگست 1947ء کوپاکستان وجودمیں آیا اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی ناجائزریاست قائم کی گئی۔ نومولودپاکستان کواسرائیل نے اپنے لیے سب سے بڑاخطرہ قرار دیدیا۔ گوریان نے کہاتھاکہ جس دن پاکستان ختم ہوجائے گااس دن اسلام کاخاتمہ ہوجائے گا۔ (خاکم بدہن)
پاکستان ایک نظریے کہ تحت وجودمیں آیااورنظریے کوختم کرناچونکہ بچوں کے آسان کھیل جیسانہیں ہوتا، لہٰذا یہاں دشمن نے سفاک چال چلی۔ ملک توڑنے کے لیے مذہب کی غلط ترجمانی کرتے ہوئے زبان، رنگ، نسل، قوم اورفرقوں کاسہارالیاگیا۔ آج یہی غیروں کے ایجنڈے پراس نظریاتی ملک کوتوڑنے کی سازش کاحصہ بنے ہوئے ہیں۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکاکے بیشتر امور اسرائیل سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ امریکا اسرائیل کو امداد کے نام پر اتنی خطیر رقم دیتا ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ 14 ستمبر 2016ء کو امریکا نے اسرائیل کے ساتھ 10سالہ فوجی امداد کا 38 ملین ڈالرکی مددکامعاہدہ سائن کیا اور یہی اسرائیل، پاکستان کو اپنے لیے سب سے بڑاخطرہ قرار دیتا ہے۔ امریکاکی سلامتی کی پالیسی سے لے کر انتظامی امور تک سب یروشلم میں طے پاتے ہیں۔ اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے بین الاقوامی ادارے اسرائیل کے اختیارمیں ہیں تو امریکا کی پالیسیاں پاکستان کے حق میں مفیدکیسے ہوسکتی ہیں؟
واضح رہے کہ پاکستان پورے عالم اسلام میں واحد جوہری طاقت ہے اوریہی بات اسرائیل کوکسی طورہضم نہیں ہوتی۔ امریکا اور اسرائیل کی کئی سازشیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جن سے ثابت ہوتاہے کہ امریکا پاکستان اور مسلمانوں کا دوست ہوہی نہیں سکتا۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن، مصر، مراکش، لبنان، تیونس اور فلسطین میں امریکا اور اسرائیل کا کردار سب کے سامنے ہے۔ یہاں ہونے والی خوں ریزی کے پیچھے گریٹر اسرائیل کامنصوبہ ہے اور گریٹراسرائیل کی راہ میں بڑی حد تک رکاوٹ پاکستان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کوختم کرنے کے لیے ان ممالک کی سرتوڑکوششیں جاری ہیں۔
برمامیں ہونے والے فسادات اور مسلمانوں کی بدترین نسی کشی بھی اسی منصوبے سے متعلق ہے۔ اگرآپ معاملات کابغور جائزہ لیں تواندازہ ہوگاکہ عراق، افغانستان سمیت دنیاکے کئی ممالک میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرنے والے امریکا نے برما میں مسلمانوں کے قتل عام پرانسانی حقوق کا واویلا کرکے وہاں امن فوج بھیجنے کے مطالبے کی آڑ میں بھی ایک بھیانک سازش میں مصروف تھا۔ دراصل امریکااس خطے میں ایک محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈ رہا تھا، جو اس کو افغانستان میں بدترین شکست کے بعدمطلوب تھی اور جوپاکستان سمیت، چین اور شمالی کوریاکی نگرانی کرسکے، لیکن چین نے بروقت اس سازش کوبھانپ کر ’’ون روڈون بیلٹ‘‘ منصوبے کے تحت فوری طورپربرماکے ساتھ کئی تجارتی معاہدے کرکے امریکاکاراستہ مسدود کردیا۔ مختصراً یہ کہ آنگ سان سوچی امریکا ہی کا پیدا کردہ ایک ایسا کردارہے، جس کا مقصد بھارت کی مددسے میانمرمیں امریکاکی راہ ہموار کرنا ہے۔ یہی اسرائیل کا وہ سازشی دماغ ہے جو درحقیقت ’’گریٹراسرائیل‘‘ کی منزل کی طرف گامزن ہے لیکن اس سارے منصوبے کے پیچھے اگرکوئی براہِ راست رکاوٹ ہے تووہ کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجودمیں آنے والا جوہری طاقت کاحامل ملک پاکستان ہے۔ ربِ کریم ہمارے وطن کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔