مولانا عادل خان کا قتل سائیں سرکار کی بڑی غفلت قرار

35

کراچی (تجزیہ: محمد انور) کراچی بھر کی فضا میں اتوار کو اداسی رہی جس کی وجہ ممتاز عالم دین اور جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے مہتمم ڈاکٹر مولانا عادل خان کا ہفتے کی شب قتل تھا‘ ان کے قتل کا واقعہ اس روز پیش آیا جس روز ملک کے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ کی جانب سے ملٹری اکیڈمی کاکول لاہور میں خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ” دشمن ہماری کامیابیوں سے مایوس ہے، یقین دلاتا ہوں کہ یہاں سب کچھ اچھا ہوگا”۔ مولانا عادل کو ظالموں نے ان حالات میں نشانہ بنایا جب صوبائی حکومت کی طرف سے بعض علاقوں میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اسمارٹ
لاک ڈاؤن کی بازگشت عام تھی اور ساتھ ہی پولیس متحرک تھی ‘ مولانا عادل سمیت اہل سنت سے تعلق رکھنے والے متعدد علما اور لوگوں میں ایک فرقہ کی طرف سے حضرت محمدؐ کے صحابیوں کو برا کہنے پر غم و غصہ بھی تھا‘ اور انہوں نے اس کی شدید مذمت کی تھی ‘ ان حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت کورونا وائرس سے بچاؤ سے زیادہ سخت حفاظتی انتظامات کرتی‘ تمام علما کرام اور دیگر اہم شخصیات کی حفاظت کا انتظام کرتی‘ ان کے لیے خصوصی پولیس گارڈ زکا انتظام کیا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ عام خیال یہ ہے کہ امن دشمن عناصر مولانا محمد عادل کو شہید کرکے شہر میں ماہ ربیع الاول سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کرانا چاہتے ہیں‘ حکومت کو تو کورونا وائرس سے بچاؤ کا خیال بھی محرم بلکہ8 اکتوبر کو حضرت امام حسینؓ کے چہلم کے بعد آیا‘ اس بارے میں وضاحت تو سندھ کی مرادعلی شاہ کی سائیں سرکار ہی کرسکتی ہے۔ مولانا عادل خان کے ناگہانی قتل پر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی ذمے دار سندھ حکومت اور اس کے ماتحت پولیس، رینجرز اور دیگر ادارے ہیں ‘ اس غفلت پر حکام کو سخت نوٹس لینا چاہیے۔ مولانا ڈاکٹر عادل نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ سے مخاطب ہوتے ہوئے سوال کیا تھا کہ جب فوج کے کسی افسر کو گالی برداشت نہیں کی جاسکتی تو آپ نبی کریمؐکے ساتھیوں کو گالی کیسے برداشت کی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کے پاس قانون نہیں ہے تو قانون بنائیں۔ خیال ہے کہ امن دشمن عناصر نے ڈاکٹر عادل کی اس تقریر کے بعد انہیں قتل کرنے کی سازش کی جس پر ہفتے کو عمل کیا گیا۔ مولانا عادل کی شہادت کے بعد دیگر علما کرام کے تحفظ کے لیے انتظامات ضروری ہوگئے ہیں جو صرف دفعہ 144 کے نفاذ سے کافی نہیں ہوںگے بلکہ حکومت کو اس مقصد کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوںگے۔