چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے ایف آئی اے کے کنڈکٹ پر سوالات اٹھا دیے۔
ایف آئی اے کی جانب سے شہری کو ہراساں کرنے کے معاملے کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے نے اتنا پراسرار نوٹس کیوں جاری کیا؟ نوٹس پرتاریخ اورطلب کرنے کی وجہ بھی نہیں لکھی؟ آپ قانون اور عام پبلک کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ایف آئی اے حکام سے پوچھا کہ اگرکوئی شکایت آئی توضرور انویسٹی گیٹ کریں، چھاپا مارنے کی اجازت کس نے دی؟ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ لوگوں کے گھروں میں چھاپےمارنا شروع کردیں، آپ کو معلوم ہے کہ چھاپا مارنے کے کیا نتائج اور اثرات ہوتے ہیں، پڑوسی اور ہمسائے دیکھتے ہیں کہ پتا نہیں کیوں چھاپا مارا گیا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت آپکو اجازت نہیں دے گی، آپ نے جو کچھ کرنا ہے قانون کے مطابق ہی کرنا ہے،آپ اپنے اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں، کس سیکشن کے تحت آپ نے یہ چھاپا مارا؟ اگرایف آئی اے کو کوئی پرائیویٹ آدمی کہہ دےتوکیا آپ چھاپا مارنا شروع کردیں گے؟چھاپا مارنے سے پہلے کون سا میٹریل آپ کے پاس تھا؟ کیا آپ کسی تصدیق کے بغیر چھاپے ماریں گے؟یہ بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، آزادی اظہار رائےہی سوسائٹی میں تبدیلی لاتی ہےآپ کو پتا ہے چھاپے مارنے کا اثرکیا ہوتا ہے؟ آپ بلاوجہ ایک بندے کو کرمنل بنا رہے ہیں۔
ایف آئی اے حکام نے کہا کہ چھاپا نہیں مارا، تفتیشی افسر صرف ایڈریس کی تصدیق کیلئے پٹیشنرکےگھرگئے تھے۔
عدالت نے شہری کو شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کر لی۔اسلام آباد کے شہری نے ایف آئی اے کی جانب سے چھاپا مارنے پر عدالت سے رجوع کیا تھا، درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ایف آئی اے حکام نے گھر پر چھاپا مارا، ہراساں کرنے سے روکا جائے۔