پاکستان میں مورثی جماعتیں عالمی ایجنڈے کا حصہ ہیں ، وفاداری خریدنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی

240
جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر ثمر سلطانہ‘ جسٹس وجیہ الدین،اور تاج حیدر نمائندہ جسارت منیر عقیل انصاری سے گفتگو کررہے ہیں

 

پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا اکثر سیاسی جماعتیں
خاندانی ، موروثی اور غیر جمہوری کیوں ہیں؟

کراچی(رپورٹ: منیر عقیل انصاری) پاکستان میں موروثی سیاست کا عالمی ایجنڈے کے فروغ میں اہم کردار ہے ،موروثی سیاست عالمی اسٹیبلشمنٹ کے احکامات کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، موروثی سیاست کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ اس کی وفاداری آسانی سے خرید سکتے ہیں آپ کو وفاداری خریدنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی ہے، موروثی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ پسند کرتی ہے،پاکستان میں موروثی سیاست دانوں کی اجارہ داری صرف قومی یا صوبائی اسمبلیوں ہی تک محدود نہیں ہے،بلکہ مقامی حکومتوں میں بھی انہی کا غلبہ رہتا ہے، پاکستان
میں سب ہی سیاسی جماعتیں جمہوریت مضبوط کرنے کی دعویدار تو ہیں تاہم ایک آدھ سیاسی جماعت کے علاوہ کوئی ایسی پارٹی مشاہدے میں نہیں آئی ہے، جو اندرونی طور پر جمہوریت پر عمل پیرا ہو۔ان خیالات کا اظہار عام لوگ اتحاد کے بانی جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد، امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تا ج حیدر ، کراچی یو نیورسٹی شعبہ سیاسیات کی چیئر پرسن پر وفیسر ڈاکٹر ثمر سلطانہ نے جسارت سے خصو صی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔عام لوگ اتحاد کے بانی جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے کہا کہ ہم جب اسٹیبلشمنٹ کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں صرف راولپنڈی آتا ہے لیکن ایسی بات نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ انٹرنیشنل لیول کی ایجنسی ہے اور جی ایچ کیو میں بیٹھے لوگوںکے پاس صرف احکامات آتے ہیں اور وہ اس پر عملدرآمد کروانے والے ہیں ،عالمی ضروریات کے پیش نظر احکامات تو کہیں اورسے آتے ہیں، تیسر ی دنیا کے ممالک اور خصوصا بر صغیر میں موورثی سیاست کا عملجاری ہے جس سے آپ اپنی مرضی کاکام لے سکتے ہیں اور یہ سلسلہ ماضی سے چلتا آرہاہے اور آج بھی جاری ہے ۔انہوں نے کہا کہ چین نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اس کھیل کو جب سمجھ لیا تو انہوں نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اٹھا کر پھینک دیا اور اب دیکھیں وہ کہاں پہنچ گئے ہیں ہم اس کے شکنجے کے اندر پھنسے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ موروثی سیاست ہے جیسے ختم کرنے کی ضرورت ہے اور جب اس طرح ملک چلایا جاتا ہے تو ملک ٹوٹتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی میں الیکشن ہوتے ہیں ،ہم نے بھی جو عام لوگ اتحاد پارٹی ہے الیکشن کروائے ،ہاں جماعت اسلامی سے متعلق ضرور کہوں گا کے امیر جماعت کے حوالے سے جو انتخابات ہوتے ہیں اس میں وہ صرف یہ بات نہیں دیکھتے کہ یہ بندہ مشہور ہے یا اچھی تقریر کر سکتاہے بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ہماری جماعت کی مشتر کہ سوچ کو ٓآگے بڑھا سکے گا یا نہیں اور وہ اس طرح سے اپنے امیر کو منتخب کرتے ہیں، یہ جماعت اسلامی کی خصو صیت ہے۔دیگر جماعتوں میں جمہوری روایت کے حوالے سے یہی کہوں گا کہ جس سے بیاہ ہوجائے وہی سہاگن کے مصداق کی صورتحال ہے۔ سابق جج کا کہنا تھاکہ دیگر سیاسی جماعتوں میں اندرونی انتخابات کا تعلق ہے ہمارے یہاں کو ئی بھی سیا سی جماعت اس نوعیت سے منظم نہیں ہے جس میں انٹراپارٹی الیکشن اس طرح سے نہیں ہوتے ہیں جس طرح برطانیہ اورامریکا سمیت دیگر ممالک کے پارٹیوں میں ہوتے ہیں، پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت اس طرح سے منظم نہیں ہے، میں جب پی ٹی آئی کا حصہ رہا اس میں بھی انٹراپارٹی انتخابات کرانے کی کوشش کی تھی لیکن وہاں بھی یہ کام نہیں ہو سکا تھا سیاسی جماعتوں کے اندر صرف نام کی جمہوریت ہے۔وجہہ الدین نے کہ پاکستان میں نچلے طبقے سے لوگوں کا پارٹیوں میں اندارج ہونا چاہیے سیاسی جماعتوں میں قیادت نچلی سطح سے آنی چاہیے اور پھر انہیں لوکل گورنمنٹ،صوبائی وقومی اسمبلیوں اور پھر سینیٹ تک پہنچنا چاہیے لیکن یہ کام پاکستان میں کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے کیوں کہ ہمارے ملک میں لوگوں کے اندر شعور اور تعلیم و تربیت ہی نہیں ہے ،ہمارے یہاں اگر کوئی شخص کسی سیا سی جماعت میں شا مل ہو تا ہے تو وہ بنیا دی طور پر اس لیے شامل ہو تا ہے کہ وہ اس سیا سی جماعت کے لیڈر کو پسند کرتا ہے یا اس نے اس سیا سی جماعت کے لیڈر کو ایک پوجنے والے بت کا درجہ دے رکھا ہوتا ہے اس لیے وہ اس سیا سی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے اسے اس سیاسی جماعت کا منشورکیا ہے، اس کا ماضی کیا ہے وہ مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہے اورسیاسی جماعت آئندہ کیا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اتنا شعور ہماری سیاسی جماعتوں کے اراکین اور ووٹرز میں بھی نہیں ہے ،توجس قوم کا یہ حال ہو تو ملک میں جمہوریت بھی ایسی ہو گی اور انٹرا پارٹی الیکشن بھی ایسے ہی ہوںگے جیسے ہوتے رہے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی نسبت سیاسی رہنما زیادہ’مضبوط برانڈ‘ ہوتے ہیں،پاکستان میںموروثی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار ہے،اسٹیبلشمنٹ سیاسی برانڈ کے ذریعے کسی غریب کارکن کو اوپر آنے نہیں دیتی ہے،موروثی سیاست کی وجہ سے پاکستان کے لوگ،اشرفیہ اور برانڈ سیاست دان غریب کے لیے بات کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سیاست جماعتوں کے اندر بھی نوکر شاہی کا مسئلہ ہے،چند خاندانوں کا پارٹیوں پر قبضہ رہے اور وہ ان لوگوں کو پارٹی کے ٹکٹ دیں جو حکمران اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ کریں،یہ لوگ نظام کو اپنا طابع رکھنا چاہتے ہیں نہ کہ نظام کے طابع رہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں موروثی سیاست اور بیورہ کریسی کی وجہ سے غریب کی زندگی تباہ ہورہی ہے،سندھ میں ہماری حکومت ہے لیکن انہیں جوتے مارنے چاہییں میںنے اسلام کوٹ کے لوگوں کے لیے 2014میں15لاکھ روپے کی لاگت سے آر او پلانٹ لگاوائے تھے حکومت سندھ کی عدم توجہی کے باعث وہ تباہ ہوگئے ہیں ان کے نلکوں میں اب کھارا پانی آتا ہے،8ماہ سے سندھ حکومت نے آر او پلانٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہ نہیں ادا کی ہے،اسلام کوٹ سمیت اس کے اطراف میں رہنے والے لوگ آج کے اس جدید دور میں بھی کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھاکہ جماعت اسلامی، پاکستان کی بہترین منظم سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی واحد سیاسی مذہبی جماعت ہے جو اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے، جماعت میں اہم ذمے داران اور شوری کا چناوَ بذریعہ انتخاب کیا جاتا ہے جس میں اراکین جماعت حصہ لیتے ہیں جبکہ دیگر ذمہ داریاں استصواب رائے کے ذریعے طے کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت میں موروثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے اور جماعت اپنے اندر نظم و ضبط، کارکنوں کے اخلاص، جمہوری اقدار اور بدعنوانی سے پاک ہونے کی شہرت رکھنے کے باعث دیگر جماعتوں سے ممتاز گردانی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سید ابوالا علیٰ مودودی 26۔اگست 1941ء تا 4 نومبر 1972ء۔ میاں طفیل محمد نومبر1972ء تا اکتوبر 1987ئِ۔قاضی حسین احمد اکتوبر 1987ء تا اپریل2009ء۔سید منورحسن اپریل 2009 ء تا مئی 2014ء۔سراج الحق 2014ء سے تا حال جماعت اسلامی کے امیر ہیں،جماعت اسلامی کی تاریخ سید مودودی ،میاں طفیل محمد ،قاضی حسین احمد،سید منورحسن اور اب سراج الحق تک اس بات کے گواہ ہیں کہ یہاں افراد کا چنائو موروثیت،ذات پات ،برادری ،مالی حیثیت وغیرہ سے یکسر ہٹ کر خالصتاًاس بات پر منحصر ہے کہ اس فرد میں تقویٰ للہیت ،دین سے محبت ایثار قربانی اور جماعت میں اس کی کارکردگی کس حد تک موثر ہے،جماعت اسلامی کے امیدوار بھی زیادہ تر متوسط طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں جن میں اکثر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔31برس سے شعبہ تدریس سے وابستہ کراچی یو نیورسٹی شعبہ سیاسیات کی چیئر پرسن پر وفیسر ڈاکٹر ثمر سلطانہ نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاندانی سیاست اس وقت ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اور ان کی اولادیں عوام پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں، ملک کی موجودہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نصف سے زیادہ ارکان ایسے ہیں، جو اپنے والد یا کسی دوسرے قریبی رشتہ دار کے باعث منتخب ہو کر آئے ہیں لیکن دراصل ’موروثی طریقے‘ سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی قیادت ایک شخصیت یا ایک خاندان کے گرد گھومتی ہے۔موجودہ حالات میں تعلیم یافتہ اور سماجی شعور رکھنے والے نوجوانوں کو سیاسی عمل میں شمولیت کا موقع فراہم کیا جائے، تاکہ وہ نئے خیالات و رْجحانات کے ذریعے مْلک کو مسائل کے گرداب سے نکالیں۔وطن عزیز اس وقت دوراہے پر ہے یہاں حقیقی لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کو چاہیے، ولی عہدی کے نظام کو چھوڑیں اور حقیقی معنوں میں عوامی سیاست کریں۔ورنہ ملک یونہی تباہی کی جانب گامزن رہے گا،موروثی سیاست کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو یہ پہنچا کہ ہمارا مْلک تیسری دْنیا کے ممالک کی فہرست میں بھی کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔پھر موروثی سیاست میں عوام کا استحصال بھی زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ یہ سیاست دان ہمیشہ اپنے مفادات ہی کو مقدّم رکھتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ طاقت اور دولت کے حصول کے خواہش مند ہوتے ہیں،پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی میں موروَثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے،جماعت اسلامی ا پنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک نئی عوامی جمہوریہ تعمیر کی جائے جس میں سیاسی پارٹیاں کسی کی جاگیر نہ ہوں اور اس کی جڑیں عوام میں ہوں۔یہ موروثی سیاست ہے ان کے بعد ان کے بیٹے اور اہل خانہ ہی بڑے عہدوں پر رہیں گے یہی لوگ آپ کے مستقبل کا فیصلہ کرتے رہیں گے اسی طرح سبز باغ دکھاتے رہیں گے،پاکستان میں جمہوری روایات کی مضبوطی کے لیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاست کرنے والی سیاسی پارٹیوں میں بھی جمہوریت ہو تاکہ جو بھی لوگ محنتی ہوں اور پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہوں وہ اپنی ان صلاحیتوں کی وجہ سے آگے آ سکیں اور اگر صحیح معنوں میں پاکستان کو مضبوط بنانا ہے تو ان جماعتوں میں جمہوریت کو فروغ دینا ہو گا اور اس کے لیے پارٹیوں کے اندر صاف شفاف انتخابات کو فروغ دینا ہو گا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پارٹی انتکابات کی نگرانی کا عمل الیکشن کمیشن کے ذریعے کیا جائے تب ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ممکن ہے جو پارٹیوں کو اپنی میراث سمجھتے ہیں، پاکستان میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) مسلم لیگ (ق ) ایم کیو ایم اے این پی، جمعیت علما ء اسلام(ف) ماسوائے جماعت اسلامی کے تقریبا موروثی پارٹی ہی نظر آتی ہیں،حزبِ اقتدار کی ہو یا پھر حزبِ مخالف کی ، زیادہ تر جماعتوں میں ہونے والے انتخابات میں جماعت کے سربراہ کا چناؤ بلا مقابلہ ہی رہا ہے۔سینئر صحا فی مظہر عباس کا کہنا تھاکہ جماعت اسلامی میں کسی حد تک جمہوریت ہے اور پارٹی عہدیداران الیکشن کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔ فی الوقت جماعت اسلامی کسی حد تک پاک نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی کی پارٹی انتخابات کے انعقاد میں بہت اچھی روایات ہیں ۔وا ضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستا ن کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں اپنی جماعت کے اندر یونین کونسل سے لے کر مرکزی عہدیداروں تک کے انتخابات کروانے کی پابند ہیں، الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق پاکستان کی 345 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، تاہم ان میں سے فعال اور متحرک سیاسی جماعتوں کی تعداد نصف بھی نہ ہوگی، جو جماعتیں متحرک نظر آتی ہیں اور انتخابات میں بھی حصہ لیا ہو، ان کی تعداد اس سے بھی کم ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے متعدد مرتبہ تاکید کی جاتی رہتی ہے جبکہ اس حوالے سے متعدد جماعتوں کی جانب سے انٹرا پارٹی کے نتائج بھی الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جاتے ہیں تاہم بیشتر نتائج میں سیاسی جماعت کی نچلی قیادت تو تبدیل ہوجاتی ہے تاہم سربراہی، جس میں چیئرمین شپ یا صدارت شامل ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوتی ہے،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک بھر میں اس وقت 345 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، تاہم قواعد و ضوابط پر پورا اترنے والی جماعتوں کی تعداد صرف 67 ہے جو انتخابات لڑنے کی اہل قرار پاتی ہیں، انتخابی نشانات رکھنے والی جماعتوں میں 120 کے قریب سیاسی پارٹیاں 2004ء سے تاحال انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں ناکام رہیں ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس وقت پاکستان میں 23 مسلم لیگس اور 9 اقسام کی پیپلزپارٹیاں موجود ہیں۔