ملک بھر میں عام استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بے قابو ہو جانے کے بعد جگہ جگہ آٹے چینی کابحران پیدا ہو گیا ہے بلکہ یوٹیلٹی اسٹورز سے بھی یہ اشیاء غائب ہو گئی ہیں۔پورے ملک کی ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں خاموش بیٹھی ہوئی ہیں۔ ایک ہفتے میں آٹے کی قیمت میں دس روپے فی کلو اضافہ ہو گیا ہے اور وزیر اعظم نے اپوزیشن کا کردار اداکرتے ہوئے سرکاری مشینری کے بجائے اپنی پارٹی کی رضا کار ٹائیگر فورس کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پی ٹی آئی کی ٹائیگر فورس کو حکم دیاگیا ہے کہ اپنے اپنے علاقوںمیں آٹے ، دال ، چینی ، گھی کی قیمتیں چیک کریں ۔ جب یہ ٹائیگر فورس دکانوں پر جائے گی اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں چیک کرے گی،جو ظاہر ہے زیادہ ہیں تو وہ کیا کرے گی اس کا کام صرف پورٹل پر ان اشیاء کی قیمتوں کی رپورٹ رکھ دیناہوگا ۔ اس میں د و خرابیاں ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کیا حکومتی مشینری ناکام ہو چکی ہے ۔ اگر وزیر اعظم نے سرکاری مشینری کی ناکامی کا اعتراف کر لیا ہے تو سب سے پہلے ملک بھر کی سرکاری مشینری سے ان تمام ملازمین کو فارغ کیا جائے جن کا کام کھیتوں سے منڈی تک پھر منڈ ی سے تھوک اور خوردہ فروشوں تک اشیاء کی فراہمی اور قیمتوں پر نظر رکھنا ہوتا ہے ۔ ان تمام لوگوں کی تنخواہوں، دفتر کے اخراجات بل وغیرہ کی رقم اشیائے خورونوش کی سبسڈی میں لگا دی جائے تاکہ عوام کوکچھ تو ریلیف ملے ۔ چونکہ یہ عملہ مستقل تھا تو ان سے بچنے والی رقم بھی مستقل ہو گی تو اس کو سبسڈی میں با قاعدہ استعمال کر لیا جائے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب ٹائیگر فورس کو دکانوں پر قیمتیں چیک کرنے کا حکم ملا ہے تو وہ سب لوگ کیا کریں گے سب سے پہلے تو ان میں اور دکانداروں میں بحث اور تکرار ہو گی ۔ تم کون ہوتے ہو قیمتیں چیک کرنے والے اور پھر اس دکاندار کے خلاف غلط رپورٹ جانے کا بھی امکان ہو گا ۔ پولیس ، پرائس کنٹرول کمیٹی ، ضلعی انتظامیہ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس وغیرہ یہی اختیار رکھتے ہیں لیکن ان کا کنٹرول ان سے اعلیٰ حکام کے پاس ہوتا ہے ۔ وہ کسی ضابطے کے تحت دُکانوں کی فہرستیں چیک کرتے ہیں، قیمتوں کی فہرست دیکھتے ہیں اور پھر اپنی رپورٹس لکھتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی ضابطے کے تحت ہوتی ہیں ۔ ان کو چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔ یہ غلط بھی ہوتی ہیں لیکن یہ سب ایک نظام کے تحت ہوتا ہے ۔ٹائیگر فورس رضا کار فورس ہے ضروری نہیں کہ پوری فورس ایماندار ہو ، بلکہ حکمران سیاسی جماعتوں کی کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان نیازی نے کرپشن کا ایک اور راستہ کھول دیا ہے ۔ یہ فورس چونکہ کسی ضابطے کے ما تحت نہیں ہے ان کا کنٹرول پارٹی کے پاس ہے حکومتی مشینری اس میں بے بس ہے لہٰذا خرابیاں ضرور پیدا ہوںگی ۔ ان سب باتوں سے قطع نظر حکومت کا کام کیا ہے؟ اسے تو سب سے پہلے اشیائے خورو نوش کی دستیابی یقینی بنانی تھی جس میں وہ مکمل ناکام ہے ۔ دوسرے مرحلے میں اسے ان اشیاء کی قیمتیں مناسب سطح پر رکھنی تھیں ۔ حکومت اس میں بھی ناکام ہے ۔ گزشتہ پانچ چھ ماہ کے دوران بار بار آٹا چینی بحران پیدا ہو رہے ہیں ۔ خود سرکارکی اپنی قائم کردہ کمیٹیوںکی رپورٹس کے مطابق ساری مافیا سرکار میں موجود ہے یا اسمبلیوں میں ۔ لیکن عمران خان نیازی مافیاز کو جیل میں ڈالنے کا اعلان کرکے یوٹرن لے چکے ۔ ان ہی کے ساتھ بیٹھے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہو رہی ہے ۔ سارا الزام عالمی وبا اور لاک ڈائون کو نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت اپنی پالیسیاں ٹھیک نہیں کر رہی ہے ۔ سارا زور اپوزیشن کے خلاف مقدمات پر ہے ۔ آئی ایم ایف عالمی بینک وغیرہ کی غلامی اور ان کے نمائندوںکو حکومتی مناصب پر فائز کرنا بھی غلطی ہے ۔ وفاقی اور خصوصاً سندھ کی صوبائی حکومت نے کے الیکٹرک کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو عوام کو مسلسل لوٹ رہی ہے ۔ بجلی کے نرخوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ پرانے اور جعلی بل دیے جا رہے ہیں ۔ فیول سے کے الیکٹرک کتنی بجلی بناتی ہے کہ وہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کرتی ہے۔بجلی کے نرخوں کے سلیپ اپنی مرضی سے بنا لیتے ہیں ۔ وفاقی حکومت نیپرا کی صورت میں تعاون کر رہی ہے ۔ میٹر رینٹ کی مد میں لوگوں سے کروڑوں روپے ماہانہ اینٹھے جا رہے ہیں ۔ ٹی وی لائسنس فیس زبردستی وصول کر کے پی ٹی وی کونہیں دی جا رہی ۔ گیس کمپنیوں کوبل ادا نہیں کیے جا رہے اور حکومت ان کے بل معاف کر رہی ہے یا خود ادا کر رہی ہے ۔ عوام کہاں جائیں ، ساری خرابیاں حکومت پیدا کررہی ہے اور پھر مہنگائی پیدا کر کے وزیر اعظم عمران خان مہنگائی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں ۔ ارے مہم تو حافظ نعیم الرحمن چلا رہے ہیں ان کے پاس انتظامیہ نہیں ہے اقتدار نہیں ہے ۔ وہ اپنے رضا کاروں کو لے کر کے الیکٹرک کا گھیرائو کرتے ہیں۔بحریہ ٹائون کے دفتر پر دھرنا دیتے ہیں اور نادرا کے دفاتر پر مظاہرہ کرتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے پاس حکومت نہیںلیکن عمران خان حکومت ہونے کے باوجود سرکاری مشینری کی ناکامی کا کھلا اعتراف کر رہے ہیں ۔ انہیں چاہیے کہ سرکار کی ناکامی اعتراف کرلیں اور ٹائیگر فورس کو اپنے الیکشن کے لیے سنبھال رکھیں ۔ بلا وجہ معاشرے میں تنائو کی کیفیت بڑھانے والے اقدامات نہ کریں ۔